افسانہ: ایسے شخص کی کہانی جسے بارش سے عشق تھا

بارش برس رہی تھی ۔ آسمان پر بادل مزید گہرے ہو رہے تھے ۔۔۔ بہت گہرے۔۔۔اور بارش کی بوندیں اس کی بند آنکھوں کے در کھٹکھٹا رہی تھیں۔لیکن  وہ ۔۔۔ ایک ایسے شخص کی کہانی جسے بارش سے عشق تھا   یہاں تک کہ سفرِ آخرت میں بھی بارش اس کے ساتھ تھی۔

بارش ہورہی تھی۔۔۔!

آسمان پر بادل اور گہرے ہو رہے تھے ۔ وہ ماڈل ٹاؤن کی صاف ستھری سڑک کے کنارے ایک ہاتھ میں چھتری اور دوسرے ہاتھ میں چھڑی تھامے ہوئے خراماں خراماں چلتے ہوئے اپنی موٹے موٹے شیشوں والی عینک کے دھندلائے ہوئے شیشوں کی اوٹ سے اپنی تمام تر جمالیات کو بروئے کار لاتے ہوئے بارش کے حسین نظاروں کا لطف اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا ۔اس کے رعشہ زدہ سر پر اسی نوے فیصد تک سفید بال  اس کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہونے کا اعلان کر رہی تھی ۔ چٹختی ہڈیوں ، رعشہ زدہ سر اور لرزتے ہوئے ہاتھوں اور پیروں کے باوجود عمر دراز جو ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر تھا ،بارشوں سے اپنے بچپن کے عشق کی لاج نبھانے کے لیے سڑکوں پر سرگرداں تھا۔

بارش اس کی کمزوری تھی ۔ وہ بچپن سے ہی بارشوں میں بھیگنے کا شوقین تھا ۔جب کبھی موسم بدلتا، بادل چھاتے اور بارش کی بوندوں کی جل ترنگ سارے عالم کو جل تھل کرنا شروع کرتی اور پیاسی زمین کی مٹی کی سیرابی سے فضا میں بھینی بھینی مہک رقص کرنے لگتی تو وہ جیسے اپنے حواس ہی کھو بیٹھتا تھا ۔ وہ کبھی گلیوں میں کبھی گھر کے صحن یا چھت پر اور کبھی کھیتوں اور کھلیانوں میں دیوانہ وار بھیگتا ہوا گھومتا پھرتا۔

یہ بھی پڑھیے: : لاہور، بارش اور لاہوریے

وہ بارشوں میں بھیگتے کے فرحت بخش لمحات بھی اپنی مثال ہوا کرتے تھے۔ نجانے کتنی کتنی دیر وہ بارش میں آنکھیں بند کیے یوں بیٹھا رہتا گویا کوئی سالک گیان دھیان میں غرق ہو۔ فطرت کے قرب کے وہ لمحات جب قطرہ قطرہ اس کی روح پر نازل ہوتے تو وہ ایک باادب قاری کی طرح اپنے وجدان کے بل بوتے پر گھنٹوں ان کی تلاوت میں مست رہتا تھا ۔ یہ بھیگے ہوئے پل اسے کسی اور ہی دنیا میں لے جایا کرتے تھے ۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے بارشوں میں بھیگنے کی خواہش پر تو قابو پا لیا لیکن اکیلے گھر سے نکل آنے اور تنہائی میں ان پر لطف لمحوں سے ہم کلام ہونے کی اپنی عادت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا ۔ ادھر موسم کے تیور بدلے ، بادل چھائے ادھر وہ گھر سے نکل گلیوں گلیوں سیر کے لیے روانہ ہوا ۔ بھیگنے کی خواہش پر قابو پانے کی ایک وجہ عمر دراز ہیڈماسٹر کی عمر رسیدگی بھی تھی ۔ اب اس کی بوڑھی ہڈیوں میں وہ سکت نہ رہی تھی کہ وہ بارش میں بھیگنے کا رسک اٹھاتا۔

شاعری سے لطف اٹھائیےجسم و جاں سلگتے ہیں بارشوں کا موسم ہے

بارشوں سے اس کے عشق کی ایک اور وجہ بھی تھی۔ اس کی زندگی کا شاید ہی کوئی اہم موقع، واقعہ یا موڑ رہا ہو جس کے بیک گراؤنڈ میں بارش کی پائلوں کی موسیقی موجود نہ ہو۔ اس کی والدہ بتایا کرتی تھیں کہ جس دن اس نے دنیا میں آنکھ کھولی اس دن ساون کی دوسری بارش پورے زوروں سے برس رہی تھی۔ جس کمرے میں عمر دراز کی پیدائش ہوئی تھی اس کی چھت ٹپک رہی تھی۔ دائی اماں نے جیسے ہی اسے ماں کے پہلو میں لٹایا اسی گھڑی وہاں سے بھی چھت ٹپکنے لگی۔ پانی کا ایک موٹا سا قطرہ نومولود کی آنکھ پہ آن گرا ۔۔۔ بارش چھت کو چیرتی اپنے نومولود عاشق کا سواگت کرنے کے لیے اس کی ماں کے بستر تک پہنچ گئی تھی۔ اس کی والدہ کے مطابق ٹھیک ایک ہفتے بعد جب عمردراز کی ختنے کی تقریب تھی اس روز بھی زوروں کی بارش برس رہی تھی۔

یہ بھی پڑھیےزمانے میں محبت کی اگر بارش نہیں ہوتی

جس روز اس کا باپ اسے انگلی پکڑائے سکول میں داخل کروانے گیا تھا اس روز بھی ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔۔ وقت گزرتا گیا اور وہ جوان ہو گیا ۔پھر وہ دسمبر کی بھیگی ہوئی شام بھی وارد ہوئی جب اسے بچپن سے ساتھ پلی چچا زاد قدسیہ سے محبت ہو گئی۔ اس واردات میں بھی کہیں نہ کہیں بارش کے رومانوی ماحول کا ضرور کوئی عمل دخل رہا ہو گا ورنہ اس نے کبھی اپنی کسی کزن میں کشش محسوس نہیں کی تھی۔

اس دسمبر بڑی بارشیں ہوئی تھیں یا شاید معمول کے مطابق ہی ہوئی ہوں لیکن اس کا اندر کیونکہ جل تھل جل تھل تھا اس لیے اسے اپنے خارج میں بھی غیر معمولی بھیگا پن محسوس ہوا ہو۔ جس قدر خارج میں سردی تھی اسی قدر داخل میں چنگاریاں ابھر رہی تھیں۔۔

بارش اور شاعری یہ بھی پڑھیےپھر مرا دل دُکھا گئی بارش

اور پھر ۔۔۔فروری کا وہ بھیگا ہوا دن آیا جب وہ گلے میں پھولوں کی مالا ڈالے قدسیہ کو بیاہنے جا رہا تھا۔ جھکے جھکے بادل جو اس کے پرانے ہمراز تھے ، تمام راہ اس کی کامیاب محبت کو سلامی دیتے رہے اور جیسے ہی وہ قدسیہ کو ہمراہ لیے اپنے گھر کی دہلیز پہ کھڑا تھا تو زور سے بادل گرجا اور تیز بارش شروع ہوگئی۔ یوں لگ رہا تھا کہ اس کے دوست بادل اس کی خوشیوں کا جشن منا رہے ہوں۔

وقت جس کا کام ہی گزرتے رہنا ہے گزرتا رہا اور بارشیں یونہی ہر خاص موقعے پر اس کا ساتھ نبھاتی رہیں۔ بچوں کی پیدائش، نوکری میں ترقیوں کے موقعے اور ریٹائرمنٹ کا دن۔۔۔ سب بادلوں کی گھنی چھاؤں میں انجام پائے تھے۔۔۔

عمردراز اب بوڑھا ہو چکا تھا اور ریٹائرمنٹ کی پرسکون زندگی گزار رہا تھا۔۔اس کا بڑھاپا اس نظم کی طرح خوبصورت تھا جو اس نے کسی ادبی جریدے سے اپنی ڈائری میں لکھ رکھی تھی۔

کسی کو آپ کے بالوں کی چاندی سے محبت ہو

کسی کو آپ کی آنکھوں پہ اب بھی پیار آتا ہو

لبوں پر مسکراہٹ کے گلابی پھول کھل پائیں

جبیں کی جُھرّیوں میں روشنی سمٹی ہوئی ہو تو

بُڑھاپا خوبصورت ہے

شکن آلود ہاتھوں پر دمکتے ریشمی بوسے

سعادت کا، عقیدت کا، تقدّس کا حوالہ ہوں

جوانی یاد کرتا دل اداسی کا سمندر ہو 

اداسی ﮐﮯ سمندر میں کوئی ہمراہ تَیرے تو

بُڑھاپا خوبصورت ہے

پرانی داستانیں شوق سے سنتا رہے کوئی

محبت سے دل و جاں کی تھکن چنتا رہے کوئی

زرا سی دھوپ میں حدّت بڑھے تو چھاؤں مل جاۓ

 برستے بادلوں میں چھتریاں تن جائیں سر پر تو

بڑھاپا خوب صورت ہے

(حمیدہ شاہین)

یہ بھی پڑھیے: ساقیا ہو گرمی صحبت ذرا برسات میں

وہ اس نظم کی دھن میں مست جیسے ہی اک موڑ مڑا تو نجانے کہاں سے ایک برق رفتار کار اس کے سامنے آ گئی ۔ اس نے سرعت سے واپس مڑنے کی کوشش کی تو اس کا پاؤں بارش کی وجہ سے ہو جانے والی کیچڑ سے پھسلا  اور وہ سڑک پر دراز ہو گیا۔  اس کے بعد اس کے حواس رفتہ رفتہ ایک ایک کر کے غیر فعال ہونے لگے۔اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا اور اس کا شعور دھیرے دھیرے تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا۔ کوئی چیز جس قدر ہماری پسندیدہ ہوتی ہے اسی قدر اس سے محتاط بھی رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کبھی کبھی جاں سے پیاری چیزیں ہی ہمارے لئے سب سے بڑی آزمائش ٹھہرتی ہیں ۔

بارش برس رہی تھی ۔ آسمان پر بادل مزید گہرے ہو رہے تھے ۔۔۔ بہت گہرے۔۔۔اور بارش کی بوندیں اس کی بند آنکھوں کے در کھٹکھٹا رہی تھیں۔۔۔!

 

متعلقہ عنوانات