مصطفیٰ کے پودے (بچوں کی کہانی)

 (یہ کہانی شیخ محمد مصطفیٰ نے تحریر کی ہے۔ وہ ساتویں جماعت کا طالب علم ہے۔)

"ارے مصطفیٰ!   پودوں کو پانی تو دے دو۔"

امی نے مجھے یاد دلایا۔

آج میں پانی دینا بھول گیا تھا ۔ میرے گھر میں ایلوویرا اور چھوٹی موٹی سبزیاں گملوں میں لگی  ہوئی ہیں۔

"بھئ!  ماہین آپا سے کہہ دیں۔ کل میں نے دیا تھا۔"

 میں نے جواب دیتے ہاتھ ہلایا ۔

"دیکھو تمھیں نیکی کمانے کا موقع ملا ہے۔ ضائع مت کرو ۔"

امی نے کہا  تو مجھے اٹھنا ہی پڑا۔ آپا مجھے دیکھ کر ہنس رہی تھیں۔ میں نے چِڑ کر منھ بنایا اور پانی دینے کے لیےچلا گیا۔

(میں ایک  اپارٹمنٹ میں رہتا ہوں۔  میرے پودے کھڑکی پر لگی گرل پر رکھے ہوئے ہیں ۔)

 بالٹی میں پانی اور ڈونگا لے کر میں پودوں کی طرف آگیا ۔  سب سے پہلے تو کھڑکی کے پاس آکر لمبا سانس کھینچا اور تازہ آکسیجن اپنے اندر لی۔پانی کے لیے سب سے پہلے پودینے کی باری آئی۔ ڈونگے میں پانی بھرا اور ڈالا۔پھر میں نے سفید پھول میں پانی ڈالا۔ ایسے کرتے بالٹی میں پانی ختم ہو گیا اور کچھ ہی دیر میں سارے پودوں کو پانی دے کر فارغ ہو گیا۔ میں نے غور سے دیکھا کہ کھڑکی میں جگہ کم ہے اور پودوں کو بڑا ہونے کے لیے  مزیدجگہ چاہیے ۔میں نے اپنی بہن سے کہا کہ   پودوں کو بڑے گملوں میں ڈال کر نانا  جی کے ہاں رکھوا دیتے ہیں۔ میں اگلے دن میں  گملے لے کر آیا۔ ہم نے کھاد  آن لائن منگوائی تھی۔  اخبار بچھایا اور کام پر لگ گئے ۔ ہمیں اس بات کا ڈر تھا  کہ کہیں پودے ٹوٹ نہ جائیں ، اس لیے  آپی اور ابو جان کی مدد سے بڑی احتیاط سے پودے بڑے گملوں میں منتقل کیے۔ ہم شملہ مرچ اور دھنیے کے گملے نانی جان کی ہاں لے گئے۔ باقی  دو گملے رہ گئے تھے، میں ان کو  ابو کے ساتھ گاڑی میں لے کے جا رہا تھا لیکن راستے میں وہ لڑھکے اور کھاد بکھر گئی۔  ابو سامان  لینے اترے اور میں نے گاڑی صاف کرنی شروع کردی ۔ پہلے ساری کھاد جمع  کی اور پودے گملوں میں ٹھیک سے لگائے۔ گاڑی کی صفائی کرتے کرتے ہاتھ درد ہورہے تھے لیکن گاڑی کے میٹس پھر بھی اچھے صاف نہ ہوئے۔اس پر ابو کی ڈانٹ بھی سننی پڑی۔خیر !ہم نے پودے نانی کی ہاں رکھوائے۔ کچھ دنوں بعد پودے بڑے ہو گئے۔ خوبصورت بھی لگ رہے تھے۔ مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں انکو دیکھ رہا تھا کہ  مجھے کسی کی آواز آئی۔

"  پیارے بچے! "

میں ڈر گیا کہ وہاں تو کوئی نہیں تھا آواز کہاں سے آرہی ہے۔  ایک بار پھر آواز آئی،

"  گھبراؤ نہیں،میں تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔"

میں نے کہا: " تم کون ہو اور کیوں شکریہ کہہ رہے ہو؟ "

میں نے غور کیا کہ آواز ان پودوں سے آرہی تھی۔

 " میں وہ پودا ہوں جو تمہارے سامنے ہوں تم نے میرا بہت خیال رکھا، پانی دیا اور پرندوں سے بچایا اور سارے پودے تمہارے بارے میں ایسا ہی سوچتے ہیں"۔ میں پودے کی باتیں سن کر حیران ہورہا تھا۔

پودے نے مجھے کہا :" میں تمہارا شکر گزار ہوں کہ تم نے مجھے ایک خوبصورت سی زندگی جینے میں مدد کی۔ اللہ تمہیں بھی صحت عطا کرے۔"

 آواز آنا بند  ہوگئی  لیکن میرا دل بہت اچھا محسوس  کر رہا تھا۔

متعلقہ عنوانات