جون ایلیا ایک حیرت انگیز شاعر: جون ایلیا کی بیسویں برسی پر ان کی شاعری کا انتخاب

آج اردو کی جدید شاعری میں ایک منفرد اور دلکش انداز رکھنے والے شاعر جون ایلیا کی بیسویں برسی ہے ۔ ان کے اشعار ہمیشہ اردو زبان کو حیاتِ نو کا مژدہ جانفزا سناتے رہیں گے ۔ اتر پردیش (بھارت) کا شہر امروہہ رئیس امروہوی اور کمال امروہوی جیسے ادبی لوگوں کا شہر ہے۔ جیسا کہ قمر علی عباسی نے اپنے سفرنامے 'دلی دور ہے' میں لکھا ہے کہ امروہ میں ایک نوزائیدہ بچہ بھی روتے ہوئے سُر اور شاعری کے اصولوں کو نہیں بھولتا۔ جون ایلیا اسی امروہہ شہر 14 دسمبر 1931 کو پیدا ہوئے اور ان کا انتقال 8 نومبر 2002 کو ہوا۔ آج ان کی بیسویں برسی پر ان کی شاعری کا انتخاب اور ان کی ذاتی زندگی کی ایک جھلک پیش خدمت ہے۔

جون ایلیا حیرت انگیز شاعر؛ شاعری کا انتخاب

جون کی شاعری ان کی اندرونی اندرونی شخصیت کا عکس محسوس ہوتی ہے ۔ جون اردو کے ساتھ ساتھ عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی کے بھی ماہر تھے۔جون ایلیا کی شاعری سادہ ہے لیکن نئے موضوعات کو چھوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے دور کے نوجوان ان کی شاعری سے خود کو جوڑ سکتے ہیں۔

جون ایلیا کی شاعری کا انتخاب:

جو گزاری نہ جا سکی ہم سے

ہم نے وہ زندگی گزاری ہے

 

میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس

خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

 

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا

ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

 

زندگی کس طرح بسر ہوگی

دل نہیں لگ رہا محبت میں

بہت نزدیک آتی جا رہی ہو

بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا

 

ساری دنیا کے غم ہمارے ہیں

اور ستم یہ کہ ہم تمہارے ہیں

 

کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے

روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے

 

کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے

روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے

 

کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی

تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا

 

کیا ستم ہے کہ اب تری صورت

غور کرنے پہ یاد آتی ہے

کس لیے دیکھتی ہو آئینہ

تم تو خود سے بھی خوب صورت ہو

 

مستقل بولتا ہی رہتا ہوں

کتنا خاموش ہوں میں اندر سے

 

علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں

وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے

 

مجھے اب تم سے ڈر لگنے لگا ہے

تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی کیا

 

اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا

جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں

 

ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا

جونؔ یاروں کے یار تھے ہم تو

 

کیا کہا عشق جاودانی ہے!

آخری بار مل رہی ہو کیا

 

اور تو کیا تھا بیچنے کے لئے

اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں

 

کتنی دل کش ہو تم کتنا دلجو ہوں میں

کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

 

سوچتا ہوں کہ اس کی یاد آخر

اب کسے رات بھر جگاتی ہے

آخر میں جون ایلیا کی ذاتی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔۔۔

جون ایلیا کا خاندان:-

جون ایلیا، رئیس امروہوی، سید محمد تقی اور شفیق حسن ایلیا جیسے دانشوروں کے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ وہ اردو زبان کے عظیم شاعروں میں سے ایک تھے۔ ان کی شادی کالم نگار زاہدہ حنا سے ہوئی تھی ۔ جون ایلیا کے بھائی رئیس امروہوی صحافی اور ماہر نفسیات تھے۔ ان کے دوسرے بھائی سید محمد تقی بھی صحافی تھے جبکہ ان کے والد شفیق حسن ایلیا خود شاعر تھے اور ماہر لسانیات تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں کو بھی لغت سکھائی اور تینوں بھائیوں نے اپنے والد کی تعلیم سے مکمل استفادہ کیا ۔

جون ایلیا کی ازدواجی زندگی:-

جون ایلیا تقریباً عمر بھر اکیلے ہی رہے۔ زاہدہ حنا کے ساتھ ان کی شادی ناکام رہی اور اگرچہ انہوں نے اپنی بیوی سے علیحدگی کے بعد خوش نظر آنے کی کوشش کی، لیکن اس عرصے میں وہ یقیناً پہلے سے کہیں زیادہ تنہا تھے۔ جیسا کہ عذرا عباس نے یکم جون 2003 کو بی بی سی اردو کے لیے اپنے مضمون میں زاہدہ سے علیحدگی کے بعد جون ایلیا کے ساتھ اپنی ایک ملاقات کے بارے میں لکھا تھا:

 "یہ جون خوش لگ رہا تھا لیکن وہ خوش نہیں تھا۔ اور  جون اداس لگ رہا تھا لیکن وہ نہیں تھا"۔

تنہائی اور جدائی کا جنون ان کی شاعری میں بھی نظر آتا تھا۔

متعلقہ عنوانات