یوم اقبال: کیا علامہ اقبال وطن پرستی کے مخالف تھے؟ اقبال تصورِ وطنیت
اقبال کے ناقدین میں بعض لوگ ان کے تصورِ وطنیت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔۔۔اور بعض ان کو وطن پرست کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ علامہ اقبال کو مصورِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے پہلی بار علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا۔۔۔۔آخر حقیقت کیا ہے؟ کیا علامہ اقبال واقعی وطن پرستی یا وطنیت کے مخالف تھے۔۔۔؟ اس تحریر میں اس سوال کا جواب بیان کیا گیا ہے۔
حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ کی زندگی پر اگر نظر ڈالی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ تعلیم کے سلسلے میں انہوں کیمبرج یونیورسٹی سے تعلیم کے دوران مغرب کی تہذیب ، فکر اور سوچ کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔ اس مشاہدے اور مطالعے نے ان کی سوچ میں واضح تبدیلی پیدا کی اور ان کے دل دماغ میں ایک حقیقی تصور وطنیت کو شرف قبولیت ملا جو بعد میں ان کے کلام کا بھی موضوع بنا ۔ آپ نے مارچ 1938 میں ایک مضمون لکھا جس میں وطنیت کے بارے میں تفصیلی بحث کی گئی ۔ آپ لکھتے ہیں:
" میں وطنیت کا سخت مخالف ہوں نہ صرف اس لیے کہ اگر یہ نظریہ ہندوستان میں عام ہوا تو اس سے مسلمانوں کو زیادہ نقصان پہنچے گا ، بلکہ میری مخالفت کا سبب یہ ہے کہ مجھے اس میں دیرینہ مادہ پرستی کے جراثیم نظر آتے ہیں جسے میں انسانیت کے حق میں عظیم ترین خطرہ سمجھتا ہوں حب الوطنی بہرحال ایک خوبی ہے اور انسان کی اخلاقی زندگی میں اس کا ایک مقام ہے ۔"
آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اقبال جو اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں ہمیں وطن پرست نظر آتے ہیں زندگی کے آخری دور میں وطن پرستی کے مخالف نظر آتے ہیں ۔
اقبال کا وطن پرستی کا دور:-
اقبال کی ابتدائی نظموں میں ہمیں وہ وطن سے گہری محبت کا اظہار کرتے ہوئے ملتے ہیں ۔ یہ ایک فطری بات ہے ہر انسان کی طرح اقبال کو بھی اپنے وطن ہندوستان سے بڑی محبت تھی بلکہ اقبال کی یہ محبت ابتدائی دنوں میں وطن پرستی کی حدوں تک پہنچی ہوئی تھی ۔ ہندوستان سے ان کی محبت اس قدر شدید تھی کہ ان کے اولین اُردو شاعری کے مجموعے "بانگِ درا" کا آغاز ہی ایک حب وطن سے سرشار نظم سے ہوتا ہے ۔ وہ اپنی نظم " تصویر درد" میں ہندوستان کی قسمت پر آنسو بہاتے ہوئے فرماتے ہیں:رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
اسی طرح وہ اپنی نظم " ترانہ ہندی" نہایت دلنشیں انداز سے اپنے وطن ہندوستان سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم ، وطن ہے ہندوستاں ہمارا
مولانا صلاح الدین احمد اقبال کے اس ابتدائی دور میں ان کے حب وطن کے جذبے کے بارے میں رقم طراز ہیں:
" جب ہم اقبال کی ابتدائی شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو قدرت اور عورت کے حسن کی پرستش کے بعد جو جذبہ سب سے پہلے نظر آتا ہے ۔ وہ وطن کی پرستش ہے"
اقبال کا مغربی وطنیت کے تصور کی مخالفت کا دور:-
یورپ کے سفر نے اقبال کے وطن پرستی کے تصور اور وطنیت کے نظریات میں بڑی تبدیلی پیدا کردی ۔وہی اقبال جو سارے 'جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ' کا نعرہ لگایا کرتے تھے اب پوری دنیا کو اپنا وطن قرار دیتے تھے ۔ اپنی نظم "ترانہ ملی" میں آپ وقوم و ملت اور وطنیت کے بارے میں ایک نظریہ پیش کرتے ہیں ۔ فرماتے ہیں:چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا
جدید مغربی افکار میں وطنیت اور قومیت قریباً ہم معنی ہیں ۔ اقبال قوم و ملت کی تشکیل جغرافیائی یا سماجی بنیادوں پر نہیں کرتے بلکہ وہ نظریے ، عقیدے اور فکر کی بنیاد پر قوم کی اکائی کا تصور پیش کرتے ہیں ۔
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں ، محفل انجم بھی نہیں
اقبال نے اسلامی قومیت کا تصور پیش کیا ۔ یہ نظریہ اخوت اسلامی اور انسانی بھائی چارہ پر مبنی تھا ۔ اس تصور میں ساری کائنات کے لیے امن اور آشتی کا پیغام تھا ۔ یہ تصور نہ صرف قومیت اور خون آشامی کا دشمن تھا بلکہ امن ، محبت اور انسانیت کا علمبردار بھی تھا ۔
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہاں گیری ، محبت کی فراوانی
بتانِ رنگ وخوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
اس ضمن میں یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ اقبال کے تصور قومیت میں جیسے جیسے ہمیں بتدریج تبدیلی اور ارتقاء نظر آتا ہے وہ ویسے ویسے وطن پرستی سے وہ بلند ہوتے جاتے ہیں ۔اقبال مغربی تصور قومیت کو اس لیے پسند نہیں کرتے کہ تصور اس کرہ ارض پہ بسنے والے انسانوں کو جغرافیائی حدود میں مقید کر کے ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتا ہے ۔ پھر ان انسانوں کو اپنی غرض اور حوس کی وجہ سے اپنے دین اور ملت کی قدروں کا احساس تک نہیں رہتا۔ اسی اقبال لیے تلقین کرتے ہیں :
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ﷺ