لاہور: وہ شہر جو پانی اور خشکی دونوں میں آباد ہے

     آج میں دفتر آ رہا تھا تو  راستے میں دیکھا، لاہور پوری طرح بھیگا ہوا تھا۔ اب ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ کسی  نے اسے دھو کر سوکھنے ڈالا ہو۔ ظاہر ہے، جی بھر کر بادل برسا  تھا ۔   اور بادل کا تو آپ کو پتہ ہے بیگم کی طرح ہوتا ہے، کبھی بھی  اور کتنا بھی برس سکتا ہے۔  دونوں برساتوں میں آپ کو بچنے کا انتظام خود کرنا  ہوتا   ہے  ۔ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ بادل بیگم کی طرح ہوتا ہے، لیکن بہرحال ان دونوں کے درمیان ایک فرق  بڑا واضح ہے۔ بادل کبھی کبھی برستا ہے اور بیگم کبھی کبھی نہیں برستی۔  گو کہ  یہ سب کہتے وقت ہم شادی شدہ نہیں  لیکن لوگ کہتے ہیں ہمارا مشاہدہ بہت تیز ہے۔  خیر چھوڑیں، آئیے اب ہم  آپ  کے جنرل نالج میں کچھ اضافہ کرتے ہیں۔

آپ نے اطالوی شہر وینس کے بارے میں تو سنا ہی ہو گا ۔ کہتے ہیں وہ پانی میں آباد ہے۔ لیکن کیا آپ نے ایسے شہر کے بارے میں بھی سنا ہے جو پانی اور خشکی دونوں میں آباد ہے؟ نہیں!!! تو  بھئی ہم آپ کو بتاتے ہیں۔ وہ شہر جو پانی اور خشکی دونوں میں آباد ہے، اس کا نام ہے لاہور۔ جی ہاں،  بارش سے پہلے خشکی میں اور بارش کے بعد پانی میں۔  لاہور جب خشکی میں ہو تو سفر  کے لیے موٹر سائیکلیں، رکشے، بسیں، کاریں حتیٰ کہ گدھا ریڑھیاں تک میسر ہیں۔ لیکن جب لاہور پانی میں ہوتا ہے تو کچھ دستیاب نہیں۔ اس کے لیے کشتیوںوغیرہ کی اشد ضرورت ہے۔  وہ سرمایہ دار حضرات جو برینڈ ورینڈ   بنانا چاہ رہے ہیں مثلاً کپڑوں  وغیرہ   کے،  اس طرف بھی ذرا غور فرمائیں۔ سرمایہ کاری کا اچھا موقع ہے۔ پھر نہ کہیے گا خبر نہ دی۔ خیر، آئیے آگے بڑھتے ہیں۔ لاہور کے بارے میں اپنی معلومات کچھ اور بڑھاتے ہیں۔ یہ ایک اور حقیقت پڑھیے۔ غور سے پڑھیے گا ہر جگہ پڑھنے کو  نہیں ملے گی۔

               جب بھی بارش ہو اور موسم خوش گوار ہو تو سارا لاہور پکوڑے  کھاتا ہے۔ جی ہاں، سارا لاہور کھاتا ہے سواۓ شوہر حضرات کے۔ کیونکہ بارش  ہو یا نہ ہو، وہ صرف جھاڑیں  ہی کھاتے ہیں۔ ایک دفع  ایک محقق نے اپنی تحقیق کے دوران ایک شوہر سے پوچھا کہ جناب آپ کو کب بیگم صاحبہ سے جھاڑیں نہیں پڑتیں؟ حضرت شوہر جھٹ بولے:  صرف تب جب بیگم میکے گئی ہوئی ہو ۔ اس پر محقق نے   کہا، سمجھ نہیں آ رہی کہ نوے فیصد شوہر  حضرات کی راۓ اس سے ملتی جلتی ہی کیوں ہے؟۔   اس پر محقق سے پوچھا گیا کہ آپ کو  کیوں سمجھ نہیں آ رہی؟ کیا آپ شوہر نہیں ہیں؟  وہ بولا  حیرانی مجھے اس بات پر  نہیں  کہ نوے فیصد شوہر حضرات کی راۓ اس سے ملتی جلتی ہے۔ بلکہ  حیرانی مجھے یہ ہے   کہ دس فیصد حضرات کی راۓ اس سے  مختلف کیسے ہے؟  بہرحال، ہم اپنے جنرل نالج پر واپس آتے ہیں۔

               کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کون سے تین موقعے ہیں، جن پر لاہوری اچانک گھر سے باہر آ جاتے ہیں۔ نہیں پتہ تو سنیے:

               ایک اس وقت جب رویت ہلال کمیٹی کو رات گیارہ بجے عید کا چاند نظر آ جاۓ۔ دوسرا اس وقت جب محلے کی دو پھپھے کٹنی آنٹیاں باہم دست و گریباں ہو جائیں۔ اور تیسرا اس وقت جب بارش ہو جاۓ۔ اہل نظر کا کہنا ہے بارش ہوتے ہی دو چیزیں فوراً گھروں سے باہر آتیں ہیں۔ ایک تو حشرات الارض اور دوسرے لاہوری۔

               ہم آپ سے ان حقائق سے ہٹ کر ذرا کچھ بات کریں؟ چلیں کر لیتے ہیں۔ ہمیں آج تک دو قسم کے لاہوریوں کی سمجھ نہیں آئی۔ ایک تو وہ جو صبح سویرے اٹھتے ہیں، گاڑی میں بیٹھتے ہیں، سیر کے لیے باغ شاغ میں آتے ہیں، پھر گاڑی سے نکلتے ہیں، باغ میں جا کر بینچ پر بیٹھ جاتے ہیں، کچھ دیر بینچ پر بیٹھنے کے بعد اٹھتے ہیں، واپس آ کر گاڑی میں بیٹھتے ہیں اور گھر واپس چلے جاتے ہیں۔ دو تین ماہ یہی روٹین دوہرانے کے بعد   وہ پوچھ رہے ہوتے ہیں: بھئی اتنی دیر ہو گئی ہمیں سیر کو جاتے ہوۓ، آخر ہمارا وزن  کیوں نہیں گھٹ رہا؟

       دوسرے وہ لاہوری، جو بارش کے موسم میں گھر سے نکلتے ہیں، گاڑی میں بیٹھتے ہیں، شیشے چڑھاتے ہیں، اے سی اون کرتے ہیں اور  سڑکوں پر گاڑی دوڑاتے پھرتے ہیں۔  بعد میں گھر آ کر کہتے ہیں: پتہ نہیں  بارش کا مزا کیوں نہیں آیا؟

    ہمارے لیے تو یہ دونوں قسم کے افراد بہت بڑا معمہ ہیں۔ بالکل ہی سمجھ سے باہر ہیں۔ آپ کی سمجھ میں آ جائیں تو ضرور بتائیے گا۔

          ہاں! ہمیں یاد آیا۔ ایک اور اہم حقیقت بارش اور لاہور کے بارے میں بتانا تو ہم بھول ہی گئے۔  بہت ہی اہم ہے۔ تمام سائنسی کسوٹیوں پر پرکھی ہوئی ہےاور کوئی اسے جھٹلا نہیں سکتا۔  عالم گیر حقیقت ہے۔ آج تک کبھی اس کے بارے میں کوئی سوال پیدا نہیں ہو سکا۔  وہ یہ کہ:

      بادل برسیں تو بارش ہوتی ہے اور بارش ہو تو پانی آتا ہے۔۔۔ کیا ؟ ہم کوئی سیاسی اشارہ دے رہے ہیں؟ نہیں تو۔ ہم تو، بالکل غیر سیاسی تحریر لکھ رہیں ہیں۔ آپ اپنا ذہن غیر سیاسی کریں۔  پھر آپ کو ہماری بات میں حقیقت نظر آۓ گی۔ اگر تب بھی نظر نہ آۓ تو بارش کے دوران لاہور کا مشاہدہ کریں۔ پھر بتائیں کیا ایسا نہیں ہوتا؟ کیا پانی نہیں آتا؟  بھئ اتنا آتا ہے کہ ہم تو کہتے ہیں کہ کاش کوئی لاہور کی ڈھلوان  راوی کی طرف کر دے۔ شاید ہمیں بھی راوی میں پانی دیکھنا نصیب ہو۔   ورنہ  پہلے لاہور راوی کے کنارے آباد ہوا تھا اور اب ہمیں راوی کے اندر آباد ہوتا نظر  آ رہا ہے۔

متعلقہ عنوانات