یوم اقبال : علامہ اقبال کے بارے میں 7 دلچسپ حقائق جو بہت کم لوگ جانتے ہیں

علامہ اقبال شاعر مشرق ہیں۔۔۔ان کی شخصیت لازوال خوبیوں سے مرقع ہے۔ اقبال شناسی ایک بحرِ بیکراں ہے۔۔۔ابھی ان کی شخصیت کے بہت سے پہلو تحقیق طلب ہیں۔ ۔۔آج آپ کو علامہ اقبال کے بارے 7 ایسے حقائق بتانے جارہے ہیں جو اکثر لوگ نہیں جانتے۔۔۔ 

 شاعر مشرق مفکر پاکستان حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی فکر، سوچ اور دانائی وہ بحر بیکراں ہے جس میں غوطہ زن ہو کر انسان خودی کے اسرار و رموز سے آشنائی حاصل کرتا۔ ان کا کلام ایسا کلام ہے جو خرد کو غلامی سے آزاد کرتا ہے اور جوانوں کو پیروں کا استاد کرتا ہے۔اقبال کے قال پر کو بے پناہ تحقیق ہوئی لیکن ان کے حال کے کئی گوشے ابھی تک تشنہ تحقیق ہیں ۔ اقبال شناسی کی منزلوں کے راہیوں کو اس جانب بھی اپنی توجہ کرنا ہو گی ۔ آئیے اقبال کی زندگی کے ان دلچسپ پہلوؤں میں سے 7 منتخب حقائق ذیل میں دیے جا رہے ہیں:

1- اقبال کے والد پیشے کے اعتبار سے درزی تھے:-

اقبال کے والد شیخ نور محمد پیشے کے اعتبار سے درزی تھے۔ ان کی خاصیت برقعوں کے لیے ٹوپیوں کی کڑھائی میں تھی اس لیے آپ کی پرورش غیر معمولی طرز زندگی میں نہیں ہوئی۔  اقبال کے والد ایک سفید پوش انسان تھے اور اس قدر وسائل نہ رکھتے تھے کہ ان کا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکے۔اقبال کے بھائی عطا محمد برطانوی فوج کے ٹھیکیدار کے طور پر کام کرتے تھے، انہوں نے اپنے بھائی کی اعلیٰ تعلیم کا خرچہ اٹھایا تھا ۔ 

2- علامہ اقبال نے تین شادیاں کی تھیں:-

اقبال کی زندگی میں کے جن پہلوؤں پر سب سے کم بات ہوئی ہے وہ ان کی ازدواجی زندگی ہے ۔ علامہ اقبال کی پہلی شادی ان کے خاندان نے 18 سال کی عمر میں ایک گجراتی معالج کی بیٹی کریم بی بی سے کی تھی۔ جب کہ اس جوڑے کے دو بچے معراج بیگم اور آفتاب اقبال تھے، وہ الگ ہوگئے۔
ان کی دوسری شادی 1914 میں مختار بیگم سے ہوئی جو 1924 میں زچگی کے دوران انتقال کر گئیں۔اقبال کی تیسری شادی سردار بیگم سے ہوئی تھی جو ان کے صاحبزادے جاوید اقبال اور صاحبزادی منیرہ کی والدہ تھیں ۔

3- جرمنی کے ہائیڈل برگ میں ایک گلی ان کے نام سے منسوب ہے:-

 علامہ اقبال نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے جرمن زبان سیکھنے کے حوالے سے ہائیڈلبرگ جرمنی میں چھ ماہ تک قیام کیا تھا۔   اس پرانی عمارت پر  جس میں آپ کا قیام رہا ایک تختی پر آج بھی لکھا ہوا ہے:
“Dr. Mohammad Iqbal, national philosopher, poet, and spiritual father of Pakistan, lived here in 1907”
 "ڈاکٹر محمد اقبال جو پاکستان کے قومی فلسفی، شاعر اور روحانی باپ ہیں ، یہاں 1907 میں مقیم تھے۔"
دریائے نیکر کے کنارے دائیں طرف اقبال اوفر ( Iqbla Ufer) نامی گلی ہے ، جو آپ کے نام سے منسوب ہے ۔

4- علامہ اقبال نے عالمی سطح پر اعزازات حاصل کیے تھے :-

اقبال کو عالمی سطح پر بڑی پذیرائی حاصل تھی۔ 1922 کے نئے سال کے اعزاز کی تقریب میں، کنگ جارج پنجم نے علامہ اقبال کو "سر" کا خطاب دیا۔ اقبال کی عمر اس وقت 45 سال تھی۔ انہیں والی افغانستان محمد نادر شاہ نے بھی ایک شاندار قالین بطور تحفہ بھی دیا تھا۔
 اقبال بہت سے القابات کے حامل آدمی تھے۔
اقبال نے 1906 میں یونیورسٹی آف کیمبرج کے ٹرینیٹی کالج سے اسکالرشپ پر بیچلر آف آرٹس کے ساتھ گریجویشن کیا اور 1908 میں میونخ کی لڈوِگ میکسیملین یونیورسٹی (Ludwig Maximilian University) سے ڈاکٹر آف فلسفہ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کو مفکر پاکستان اور حکیم الامہ کے  القابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔

5- اقبال کئی زبانیں جانتے تھے:-

اقبال ایک کثیر لسانی شخصیت تھے جو اردو، پنجابی ، فارسی، عربی، انگریزی، جرمن اور سنسکرت بول سکتے تھے۔ شاعرانہ اظہار کے لیے ان کی پسندیدہ زبان اردو کی بجائے فارسی تھی۔

6- علامہ اقبال نے صدیوں کے بعد مسجد قرطبہ میں صدائے اذان بلند کی :-

علامہ محمد اقبال نے 1932/33 ء میں اپنے دورہ سپین کے دوران قرطبہ کی عظیم مسجد (مسجد قرطبہ) کا دورہ کیا۔ قرطبہ کی عظیم مسجد کو 1236 عیسوی میں کیتھولک چرچ میں تبدیل کر دیا گیا۔ تاہم، اقبال خوش قسمت تھے کہ انہیں مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت ملی ۔
 مسجد قرطبہ کا دورہ کرنے کے بعد اقبال نے مسجد قرطبہ کے نام سے ایک نظم لکھی جو بعد میں 1936ء میں ان کے مجموعے "بال جبریل" میں شائع ہوئی۔ آپ قرطبہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود

7- جاوید اقبال کی گراموفون کی فرمائش "جاوید کے نام" نظم لکھنے کی وجہ بنی:- 

یہ واقعہ ان کے صاحبزادے جاوید اقبال اپنی تصنیف " اپنا گریباں چاک" میں یوں بیان کرتے ہیں:
مجھے موسیقی سے بھی خاصا لگاؤ تھا لیکن ہمارے گھر میں نہ تو ریڈیو تھا اور نہ گراموفون ۔ گانا سننے کا شوق تو والد کو بھی تھا ۔ جوانی میں ستار بجاتا ہے تھے ۔ جب کبھی فقیر نجم الدین گھر پر انہیں طاؤس بجا کر سناتے تو مجھے بھی پاس بٹھا لیا کرتے ۔ 1931 میں دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے جب انگلستان گئے تو میں نے انہیں ایک اوٹ پٹانگ سا خط لکھا اور خواہش ظاہر کی کہ جب واپس آئیں تو میرے لئے ایک گراموفون لے کے آئیں۔ گرامو فون تو وہ لے کر نہ آئے مگر میرا انہیں انگلستان میں لکھا ہوا خط ان کی مندرجہ ذیل نظم کی شان نزول کا باعث ضرور بنا :
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر

متعلقہ عنوانات