علامہ اقبال کے شخصیت کے 5 دلکش رنگ: خطوطِ اقبال کی روشنی میں
علامہ اقبال برصغیر پاک و ہند کی بیسویں صدی کی سب سے قد آور شخصیات میں سے ہیں ان کے خطوط کا مطالعہ کرنے سے مختلف موضوعات پر ان کے خیالات و نظریات کھل کر سامنے آتے ہیں جو ان کی شاعری میں اجمالاً بیان ہوئے ہیں۔ ان مکاتیب میں اقبال علمی ، ادبی ، سیاسی ، مذہبی اور تاریخی مسائل میں اپنے حکیمانہ نکتہ نظر پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ان کے خطوط کی روشنی میں ان کی شخصیت کے پانچ رنگ اس تحریر میں پیش کیے جارہے ہیں۔
خط کو آدھی ملاقات کہا جاتا ہے اور بجا طور پر ایسا کہا جاتا ہے ۔ موجودہ دور میں اگرچہ خط کے متبادلات یعنی ایک میل ، ایس ایم ایس اور واٹس ایپ وغیرہ آ چکے ہیں لیکن ان جدید ذرائع میں جیسے جیسے میڈیم مشینی ہوتا گیا ویسے ویسے نفس مضمون میں سے بھی وہ چاشنی ، مٹھاس اور رنگینی رخصت ہوتی گئی اور لکھ کر پیغام بھیجنے کے ذرائع محض معلومات کی ترسیل کا ذریعہ بن کر رہ گئے ۔
ماضی میں مشاہیر اور قدآور شخصیات کے لکھے گئے خطوط کا مطالعہ کرنے سے ان خیالات ، نظریات اور معمولات کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے ۔ مولوی عبد الحق صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں:
" خط دلی خیالات و جذبات کا روزنامچہ اور اسرار حیات کا صحیفہ ہے۔ اس میں وہ صداقت و خلوص ہے جو دوسرے کلام میں نظر نہیں ۔۔۔ خطوں سے انسان کی سیرت کا جیسا اندازہ ہوتا ہے وہ کسی دوسرے ذریعے سے نہیں ہو سکتا ۔"
علامہ اقبال کے خطوط
علامہ اقبال برصغیر پاک و ہند کی بیسویں صدی کی سب سے قد آور شخصیات میں سے ہیں ان کے خطوط کا مطالعہ کرنے سے مختلف موضوعات پر ان کے خیالات و نظریات کھل کر سامنے آتے ہیں جو ان کی شاعری میں اجمالاً بیان ہوئے ہیں ۔ اقبالیات سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے اقبال کے خطوط نہایت قیمتی سرمایہ ہیں ۔ شیخ عطاء اللہ صاحب اقبال کے خطوط دو جلدوں میں شائع کر چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی مکاتیب اقبال کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں اقبال کے امراء و وزرا ، علماء و مشائخ اور اساتذہ و دیگر سیاسی رہنما شامل ہیں ۔ ان مکاتیب میں اقبال علمی ، ادبی ، سیاسی ، مذہبی اور تاریخی مسائل میں اپنے حکیمانہ نکتہ نظر پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ آئیے اقبال کے مکاتیب کی روشنی میں اقبال کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
1۔ اقبال کی کسرِ نفسی:-
علامہ اقبال ان شخصیات میں سے ہیں جن کو ان کی زندگی میں ہی قدرت نے بے پناہ قبولیت اور عزت سے نوازا تھا لیکن اتنی شہرت کے باوجود آپ کی شخصیت میں انتہاء درجے کا عجز و انکسار پایا جاتا تھا ۔ مولانا عبد الماجد دریابادی کو لکھے گئے ایک میں آپ اپنے عجز کا یوں اظہار فرماتے ہیں:
" میرے کلام کی مقبولیت محض فضل ایزدی ہے ورنہ اپنے آپ میں کوئی ہنر نہیں دیکھتا اور اعمال صالح کی شرط بھی مفقود ہے ۔"
جب مسلمان نوجوانوں کی تربیت کے لیے ایک فوجی سکول آپ کے نام پر قائم کرنے کی تجویز پیش کی گئی تو آپ نے میجر سعید محمد خان کو لکھے گئے اپنے خط میں یوں اپنی انکساری کا اظہار کیا:
"ایک معمولی شاعر کے نام سے فوجی اسکول کو موسوم کرنا کچھ زیادہ موزوں نہیں معلوم ہوتا۔ میں تجویز کرتا ہوں کہ آپ اس فوجی اسکول کا نام' ٹیپو فوجی اسکول' رکھیں۔ ٹیپو سلطان ہندوستان کا آخری مسلمان سپاہی تھا جس کو ہندوستان کے مسلمانوں نے جلد فراموش کر دینے میں بڑی ناانصافی سے کام لیا ہے"
اقبال کے ان الفاظ سے ناصرف ان کی کی اعلیٰ ظرفی، کسرنفسی اور عجز کا اظہار ہوتا ہے بلکہ ٹیپو سلطان کے لیے ان کی عقیدت اور محبت کا بھی سراغ ملتا ہے۔
2۔ قرآن کریم سے اقبال کی محبت:-
یوں تو اقبال کی شاعری قرآن کریم کی تعلیمات کی ہی تشریح وتوضیح توضیح ہے اور وہ جابجا قرآن کی طرف ہمیں رغبت بھی دلاتے ہوئے نظر آتے ہیں تاہم ان کے خطوط سے بھی ہمیں ان کی اس محبت کا پتہ ملتا ہے ۔ نیاز الدین خان صاحب کو ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:
"قرآن کثرت سے پڑھنا چاہیے تاکہ قلوب محمدی نسبت پیدا کریں ۔ اس نسبت محمدیہ کی تولید کے لیے یہ ضروری نہیں کہ قرآن کے معنی بھی آتے ہوں ۔ خلوصِ دل کے ساتھ محض قرات کافی ہے ۔ "
اسی طرح اکبر الہ آبادی کو ایک خط میں فرماتے ہیں:
" واعظِ قرآن بننے کی اہلیت تو مجھ میں نہیں ہے ہاں! اس مطالعہ سے اپنا اطمینان خاطر روزبروز ترقی کرتا جاتا ہے"
3۔ روضہ رسول ﷺ پر حاضری کی خواہش:-
اقبال ایک سچے عاشق رسول ﷺ جس کا اظہار آپ نے جابجا اپنی شاعری میں بھی کیا ہے ۔ ہر عاشق رسول ﷺ کی دلی آرزو ہوتی ہے کہ اسے در نبی ﷺ کی حاضری اور روضہ رسول کی زیارت کی سعادت نصیب ہو ۔ اقبال کی دل میں یہ خواہش ہمہ وقت موجزن رہتی تھی جس کا ثبوت ہمیں ان کے مکتوبات سے ملتا ہے ۔ 1911 میں ایک خط اکبر الہٰ آبادی کو لکھتے ہیں:
" خدا آپ کو اور مجھ کو بھی زیارت روضہ رسول ﷺ نصیب کرے ۔ مدت سے یہ آرزو دل میں پرورش پا رہی ہے ۔ دیکھیے کب جوان ہوتی ہے ۔"
اسی طرح 1937 میں ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کو لکھا:
" اگر توفیق الٰہی شامل حال رہی تو مکہ ہوتا ہوا ممکن ہے مدینہ تک پہنچ سکوں ۔ اب مجھ ایسے گنہگاروں کے لیے آستان رسالت کے سوا اور کہاں جائے پناہ ہے ؟"
4۔ قائد اعظم کی قیادت پر بھرپور اعتماد:-
علامہ اقبال نے جو مکتوبات قائد اعظم محمد علی جناح کے نام لکھے ان سے ناصرف اقبال کی دور اندیشی کا پتہ چلتا ہے بلکہ قائد اعظم کی قائدانہ صلاحیتوں پر ان کے بھرپور اعتماد اور یقین کا بھی اظہار سامنے آتا ہے ۔ 28 مئی 1930 میں قائد اعظم کے نام ایک خط میں اقبال لکھتے ہیں
" اسلامی ہندوستان کو امید ہے کہ اس نازک دور میں آپ کی فطانت و فراست ہماری موجودہ مشکلات کا کوئی حل تجویز کر سکے گی"
اسی طرح 21 جون 1930 میں ایک خط میں قائد اعظم کو لکھتے ہیں:
" اس وقت مسلمانوں کو طوفان بلا میں جو شمال مغربی ہندوستان اور شاید ملک کے گوشے گوشے سے اٹھنے والا ہے صرف آپ ہی کی ذاتِ گرامی سے رہنمائی کی توقع ہے ۔"
اقبال کے یہ کلمات جمیلہ قائد اعظم کے لیے ان غیر متزلزل بھروسے اور یقین کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔
5۔ قوم کی زبوں حالی اور مذہب بیزاری کا کلَک:-
اقبال جہاں اپنی شاعری میں مسلمانوں کی زبوں حالی پر نوحہ کناں نظر آتے ہیں وہیں اپنے مکتوبات اور تقاریر میں بھی اس پر کڑھتے ہوئے ملتے ہیں ۔ سراج الدین پال صاحب کے نام مکتوب میں رقم طراز ہیں:
" حدیث میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالی کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔ افسوس ہے کہ مسلمان مردہ ہیں۔ انحطاط ملی نے ان کے تمام قویٰ کو شل کر دیا ہے۔ مگر ہمیں اپنے آپ نے ادائے فرض سے کام ہے۔ ملامت کا خوف رکھنا ہمارے مذہب میں حرام ہے۔ "
اسی حوالے سے اقبال کی ایک مشہور نظم کے چند اشعار پر اختتام کرنا چاہوں گا ۔
یارب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دے
جو قلب کو گرما دے ، جو روح کو تڑپا دے
پھر وادیِ فاراں کے ہر ذرّے کو چمکا دے
پھر شوقِ تماشا دے ، پھر ذوقِ تقاضا دے
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خُوگر کو پھر وسعتِ صحرا دے