علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ: یوم اقبال کے حوالے سے تقریر

علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ: یوم اقبال کے حوالے سے طلبہ کے لیے بہترین  تقریر

بچوں میں اقبال فہی کی اشد ضرورت ہے۔ یومِ اقبال کے موقع پر سکول میں مختلف سرگرمیوں کی مدد سے علامہ اقبال کے نظریات اور تصورات کو بچوں میں راسخ کیا جاسکتا ہے۔ تقریری مقابلے اس کا بہترین ذریعہ ہیں۔ الف یار پر یومِ اقبال کے حوالے سے اردو تقاریر کا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔ آج پہلی تقریر ملاحظہ کیجیے۔

صاحب صدر اور عزیر ساتھیو!

مجھے آج جس شخصیت کے بارے میں لب کشائی کرنے کا موقع عنایت ہوا ہے وہ دانائے راز، حکیم الامت، شاعر مشرق و عالم مغرب حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ آپ کی ہمہ جہت شخصیت کے بارے میں مجھ جیسے کم علم کا بات کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ کیونکہ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو مغرب سے نائٹ کا اعزاز حاصل کرتے ہیں اور مشرق میں "علامہ" کہلانے کے قابل ہوتے ہیں ہیں۔ تاہم، سر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے علاوہ ایک بھی فرد ایسا نہیں ہے جس کا نام "سر" اور "علامہ" دونوں سے شروع ہوتا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کا خطاب بھی ہو۔

آپ کو یہ تمام اعزازات اور پذیرائی اس درد دل کی بدولت نصیب ہوئی جو آپ اسلامیان ہند اور امت مسلمہ کے لیے رکھتے تھے ۔اپنے بارے میں آپ خود فرماتے ہیں:

اک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو

لاہور سے تا خاک بخارا و سمرقند

صدر زی وقار!

 اقبال کی شاعری میں کاروبار ہستی کے ان اسرار و رموز  کی کشف المحجوبی کی گئی ہے جو ہماری نوجوان نسل کو دنیا کی امامت کی راہ پرخار کے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتے ہیں ۔

سبق پڑھ پھر صداقت کا شجاعت کا عدالت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

جناب صدر!

حضرت اقبال جیسے عظیم انسانوں کو قدرت عظیم کاموں کے لیے تخلیق کرتی ہے ۔ برصغیر میں چاروں طرف غلامی کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے ۔ فرزندان اسلام غفلت کی نیند سوئے ہوئے تھے ۔ ایسے میں اقبال کی شاعری آزادی کا ترانہ بن کر گونجی۔  آپ کا پیغامِ حریت و آزادی قدرت کا ایک بیش بہا انعام ثابت ہوا ۔ آپ کی دلی آرزو تھی کہ مسلمان ایمان کی تصویر بن جائیں ، قرآن کی تفسیر بن جائیں اور ان کا جذبہ نعرہ تکبیر بن جائے ۔ آپ نے مردہ دلوں کو حیاتِ نو کا نغمہ سنایا، گرتے ہوؤں کو اٹھایا اور غلامی میں بھٹکنے والوں کو آزادی کا جلوہ دکھایا ۔ اس مقصد کے لیے آپ نے ایمان و یقین کے چراغ روشن کیے اور مسلمانوں کو سمجھایا کہ:

جب اس انگارہء خاکی میں ہوتا ہے یقین پیدا

تو کر لیتا ہے یہ بال و پرِ روح الامین پیدا

حاضرینِ محفل!

اقبال نے اپنی شاعری میں شاہین کا استعارہ بارہا استعمال کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پرندہ ان کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ وہ اپنی ملت کے جوانوں کو شاہین کی طرح جھپٹنے پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے والی خوبیوں سے متصف دیکھنا چاہتے تھے ۔وہ نوجوان سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں:

تیرا جوہر ہے، نوری پاک ہے تو

فروغِ دیدہء افلاک ہے تو

تیرے صیدِ زبوں، فرشتہ و حور

 کہ شاہینِ شہِ لولاک ہے تو

اور یہ کہ :

پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں

کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ

عزیزان گرامی!

اقبال اس قوم کے جوانوں کو شاہین کی طرح بلند پرواز اور تیز نگاہ دیکھنا چاہتے تھے ۔ شاہین خودار  ہوتا ہے ، سخت شعار ہوتا ہے ، غیرت مند ،جرات مند اور وفادار ہوتا ہے ۔ اقبال یہی اوصاف اس ملت کے جوانوں میں دیکھنے کے خواہاں تھے ۔

جناب صدر!

ضرورت اس امر کی ہے کہ اقبال کے نور بصیرت کو عام کیا جائے اور وہ جوانان اسلام جن میں بیداری شعور کے لیے اقبال ہمیشہ فکر مند رہتے تھے انہیں اقبال کے پیغام کی اصل روح سے آشنا کیا جائے تاکہ ہم پاکستان کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکیں جو اقبال نے دیکھا تھا ۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا

تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں

متعلقہ عنوانات