Saeed Arifi

سعید عارفی

سعید عارفی کی نظم

    امانت

    میں سالہا سال سے ایک چھوٹی سی پوشیدہ آرزو کا امین ہوں میرا ایک مختصر سا خوب صورت لکڑی کا مکان آنگن میں دانہ چگتی ہوئی مرغیاں کچھ پالتو جانور گائیں بھینسیں بکریاں اور چاروں سمت سبز رنگ میں لپٹے ہوئے کھیت ہی کھیت میٹھے پانی سے لبریز گہرے کنوئیں اور انہیں کھیتوں کے درمیان سے ہو ...

    مزید پڑھیے

    سبھی کچھ مٹا دیں

    سڑکوں پہ نالیاں کمروں میں مکڑی کے جالے بے معنی شامیں بے مطلب سحر کے اجالے روشنی پھیلی کھڑکیاں کھلیں گنگناہٹیں جاگیں سڑکوں پر جی اٹھا پھر ایک شہر بند ہو گئیں سرسراہٹیں جھیلیں گے سب سر ہے آسمان کے حوالے فرش پر گرے گھونسلے بکھر گیا تنکوں کا میلا لاکھوں خبروں کی بھیڑ میں ایک خبر ...

    مزید پڑھیے

    جسم کی تلاش

    جسم بھی ٹوٹ چکا کون اسے پہچانے روح میری مجھے آواز نہ دے پائی کبھی راستے بھی مری پرچھائیں سے آگے نہ بڑھے اور احساس کی قندیل بجھی شام ڈھلے رات گزری تو ہوا یوں محسوس نیم وحشی سی کہانی تھی سنانے کو جسے صبح نو جیسے دبے پاؤں چلی آئی مرے کمرے میں اور میں شہر خموشاں میں کئی صدیوں تک یہی ...

    مزید پڑھیے

    لمحوں کا کرب

    دل افسردہ کی آرزوؤں کے رمیدہ لمحو تمہاری بے کیفی کے قافلے رفتہ رفتہ حریم جاں سے گزر رہے ہیں اور تمہیں پتہ ہے کہ آسماں کی بلندیوں پہ پہنچ کے انسان مردہ ہو چکا ہے تو پھر کشید جاں سے نکال کر کوئی حسین منظر قطرہ قطرہ حیات کی تشنگی کے اس کاسۂ تہی میں ڈالو تاکہ ثبات کی خاطر بھٹکے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    روشنی کا سراغ

    ہمارے ذہنوں پہ کتنی صدیوں کے مہیب اندھیرے کی حکمرانی میں ایک مہر لا زوال چمکا تاریک راہوں کو روشنی کا سراغ ملا نگاہ و دل کو نئی منزلوں نئی رفعتوں نئی عظمتوں کا پتہ بتا کر عمل کی اک شمع نو جلا کر جس نے ہمارے وجدان و ادراک کو جھنجھوڑا غنودگی کے شکار احساس کو جگایا شعور کی بے حسی ...

    مزید پڑھیے

    آخری دن نزدیک ہے

    یہ سوتے جاگتے لمحات مجھے اب حالت احساس میں رہنے نہیں دیتے ہر اک پل بوجھ لگتا ہے یہ جسم اپنا مجھ تنہائیوں کے ہر سفر سے خوف آتا ہے مجھے یہ چاندنی بھی اب بہت اچھی نہیں لگتی کسی چہرے پہ وہ سرخی شفق جیسی نہیں ملتی مجھے معصوم بچوں کا ہمکنا اور اچھلنا کودنا کلکاریاں لینا بھی سب بے کیف ...

    مزید پڑھیے

    سانپ کمرہ اور میں

    تنگ کمرے میں کچھ سانپ ہیں اور میں فرش پر لال آنکھیں دکھاتے ہوئے سرخ انگاروں سے خود کو محفوظ رکھنے میں مصروف ہوں اور کمرے کی چھت روشنی کی لکیریں سمیٹے کھڑی ہے غرض پاؤں کو سرخ انگاروں سے سر کو چبھتی ہوئی روشنی کی لکیروں سے محفوظ رکھنے میں میں منہمک ہوں کالے پیلے ہرے سانپ بھی مجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    تعلق

    جواب ملیں بھی تو پہچاننے میں زحمت ہو کریں جو بات تو ایسے کہ یہ گماں ہو جائے کہ ہم میں تم میں کوئی رسم و راہ تھی ہی نہیں

    مزید پڑھیے

    خوشبو کا عمل

    ایسا کیوں ہوتا ہے جب برگ زرد سکوت آشنا خلاؤں میں آوارہ خاموشیاں موسم خزاں کی علامت دھڑکنیں سماعت سے ماورا گردشیں نقطۂ انجماد پر اور پھر کوئی سرخ گلاب ٹہنی سے ٹوٹ جاتا ہے یہ کیفیت سارے چمن کو حیرت زدہ کر دیتی ہے گلاب کے جدا ہونے پر سسکیاں تو ابھرتی ہیں مگر گلاب کی خوشبو کا عمل ...

    مزید پڑھیے

    جستجو

    کب سے قید ہوں چلتے پھرتے زنداں میں کانٹوں کی ردا اوڑھے ہوئے پتھروں کا پیرہن پہنے ہوئے کب سے ڈھونڈھ رہا ہوں دیس دیس جنگل جنگل صحرا صحرا خود شناسی کی بے پناہ دولت خود کو پا لینے کی یہ خواہش نہ جانے کب تک اجاگر رہے گی اور لے جائے گی سفر در سفر منزل بمنزل نہ جانے کہاں کہاں

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2