روشنی کا سراغ
ہمارے ذہنوں پہ
کتنی صدیوں کے
مہیب اندھیرے کی حکمرانی میں
ایک مہر لا زوال چمکا
تاریک راہوں کو روشنی کا سراغ ملا
نگاہ و دل کو
نئی منزلوں
نئی رفعتوں
نئی عظمتوں
کا پتہ بتا کر
عمل کی اک شمع نو جلا کر
جس نے
ہمارے وجدان و ادراک کو جھنجھوڑا
غنودگی کے شکار احساس کو جگایا
شعور کی بے حسی کو
اک ارتعاش کی کیفیت عطا کی
وہ جانتا تھا کہ
زیست کے اس بے نور صحرا میں
وقار ملت کہاں نہاں ہے
عروج کی داستاں کے آغاز کا اجالا کہاں چھپا ہے
وہ جانتا تھا
کہ تاریخ اقوام عالم میں
زندہ قوموں کی شناخت
علم کی بدولت ہے
اور
علم سے دور رہنے والی قومیں
اک کاسۂ تہی کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں
اسے
اس راز سر بستہ کا عرفان ہو چکا تھا
کہ علم ہی ہے
وقار ہستی
بہار ہستی
اسی لئے آج اس کے در پر
جبین عالم جھکی ہوئی ہے