سانپ کمرہ اور میں

تنگ کمرے میں کچھ سانپ ہیں
اور میں
فرش پر لال آنکھیں دکھاتے ہوئے سرخ انگاروں سے
خود کو محفوظ رکھنے میں مصروف ہوں
اور کمرے کی چھت
روشنی کی لکیریں سمیٹے کھڑی ہے
غرض
پاؤں کو سرخ انگاروں سے
سر کو چبھتی ہوئی روشنی کی لکیروں سے محفوظ رکھنے میں میں
منہمک ہوں
کالے پیلے ہرے
سانپ بھی
مجھ کو ڈسنے چلے آ رہے ہیں
مگر میں انہیں مار ڈالوں گا اک دن یہ مجھ کو یقیں ہے
پھر اچانک میں یہ سوچتا ہوں
میرے کمرے میں روزن نہیں ہے کوئی
جس سے باد صبا چپکے در آ کے شعلوں کو دہکا سکے
بلب خاموش ہے
پھر بھلا سانپ کیوں آئیں گے
جسم سے وسوسوں کی یہ بوسیدہ چادر ہٹا کر
صاف ستھرے سے بستر پہ میں سو رہا ہوں
کیوں کہ پچھلے جنم سے میں نردوش ہوں
مرا تنگ کمرہ
مجھے دیر سے تک رہا ہے