جسم کی تلاش

جسم بھی ٹوٹ چکا کون اسے پہچانے
روح میری مجھے آواز نہ دے پائی کبھی
راستے بھی مری پرچھائیں سے آگے نہ بڑھے
اور احساس کی قندیل بجھی شام ڈھلے
رات گزری تو ہوا یوں محسوس
نیم وحشی سی کہانی تھی سنانے کو جسے
صبح نو جیسے دبے پاؤں چلی آئی مرے کمرے میں
اور
میں شہر خموشاں میں کئی صدیوں تک
یہی سوچا کیا جیسے مرا ٹوٹا ہوا بکھرا ہوا جسم
اسی فرسودہ کہانی میں چھپا بیٹھا ہے
میں نے سوچا کہ
اسے ڈھونڈھوں
اسے اپنے قریب لاؤں
اور پوچھوں کہ مری ذات سے ہو کر تو جدا
کیوں اساطیر کے زنداں میں رہا یوں محبوس