Saeed Arifi

سعید عارفی

سعید عارفی کے تمام مواد

3 غزل (Ghazal)

    خودی میرا پتہ دیتی ہے اب بھی

    خودی میرا پتہ دیتی ہے اب بھی مجھے مجھ سے ملا دیتی ہے اب بھی گزشتہ موسموں کی نرم خوشبو تعلق کا پتہ دیتی ہے اب بھی کبھی رہ رہ کے اک گمنام خواہش سفر کا حوصلہ دیتی ہے اب بھی یہ آوارہ مزاجی دشت جاں میں نیا جادو جگا دیتی ہے اب بھی امید صبح نو ہر شام غم میں تھکن ساری مٹا دیتی ہے اب ...

    مزید پڑھیے

    بے سبب ٹھیک نہیں گھر سے نکل کر جانا

    بے سبب ٹھیک نہیں گھر سے نکل کر جانا جستجو ہو کوئی دل میں تو سفر پر جانا دن کے تپتے ہوئے موسم میں بھٹکنا ہر سو شام آئے تو پرندوں کی طرح گھر جانا ہر گزرتے ہوئے بے رنگ سے موسم کے لیے اک نئی رت کے نئے پھول یہاں دھر جانا لوگ جلتا ہوا گھر دیکھ کے خوش ہوتے ہیں اور ہم نے اسے اب اپنا مقدر ...

    مزید پڑھیے

    خشک ہونٹوں کی انا مائل ساغر کیوں ہے

    خشک ہونٹوں کی انا مائل ساغر کیوں ہے تو سمندر ہے تو یہ پیاس کا منظر کیوں ہے یہ فسوں کاریٔ احساس ہے یا عکس حیات آئنہ خانے کا ہر آئنہ ششدر کیوں ہے قرب ساحل بھی ٹھہرتی نہیں اب کشتیٔ جاں اتنا برہم مرے اندر کا سمندر کیوں ہے شعلہ شعلہ ہے ہر اک شاخ مری پلکوں کی پھر بھی آنکھوں میں حسیں ...

    مزید پڑھیے

15 نظم (Nazm)

    امانت

    میں سالہا سال سے ایک چھوٹی سی پوشیدہ آرزو کا امین ہوں میرا ایک مختصر سا خوب صورت لکڑی کا مکان آنگن میں دانہ چگتی ہوئی مرغیاں کچھ پالتو جانور گائیں بھینسیں بکریاں اور چاروں سمت سبز رنگ میں لپٹے ہوئے کھیت ہی کھیت میٹھے پانی سے لبریز گہرے کنوئیں اور انہیں کھیتوں کے درمیان سے ہو ...

    مزید پڑھیے

    سبھی کچھ مٹا دیں

    سڑکوں پہ نالیاں کمروں میں مکڑی کے جالے بے معنی شامیں بے مطلب سحر کے اجالے روشنی پھیلی کھڑکیاں کھلیں گنگناہٹیں جاگیں سڑکوں پر جی اٹھا پھر ایک شہر بند ہو گئیں سرسراہٹیں جھیلیں گے سب سر ہے آسمان کے حوالے فرش پر گرے گھونسلے بکھر گیا تنکوں کا میلا لاکھوں خبروں کی بھیڑ میں ایک خبر ...

    مزید پڑھیے

    جسم کی تلاش

    جسم بھی ٹوٹ چکا کون اسے پہچانے روح میری مجھے آواز نہ دے پائی کبھی راستے بھی مری پرچھائیں سے آگے نہ بڑھے اور احساس کی قندیل بجھی شام ڈھلے رات گزری تو ہوا یوں محسوس نیم وحشی سی کہانی تھی سنانے کو جسے صبح نو جیسے دبے پاؤں چلی آئی مرے کمرے میں اور میں شہر خموشاں میں کئی صدیوں تک یہی ...

    مزید پڑھیے

    لمحوں کا کرب

    دل افسردہ کی آرزوؤں کے رمیدہ لمحو تمہاری بے کیفی کے قافلے رفتہ رفتہ حریم جاں سے گزر رہے ہیں اور تمہیں پتہ ہے کہ آسماں کی بلندیوں پہ پہنچ کے انسان مردہ ہو چکا ہے تو پھر کشید جاں سے نکال کر کوئی حسین منظر قطرہ قطرہ حیات کی تشنگی کے اس کاسۂ تہی میں ڈالو تاکہ ثبات کی خاطر بھٹکے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    روشنی کا سراغ

    ہمارے ذہنوں پہ کتنی صدیوں کے مہیب اندھیرے کی حکمرانی میں ایک مہر لا زوال چمکا تاریک راہوں کو روشنی کا سراغ ملا نگاہ و دل کو نئی منزلوں نئی رفعتوں نئی عظمتوں کا پتہ بتا کر عمل کی اک شمع نو جلا کر جس نے ہمارے وجدان و ادراک کو جھنجھوڑا غنودگی کے شکار احساس کو جگایا شعور کی بے حسی ...

    مزید پڑھیے

تمام