Saeed Arifi

سعید عارفی

سعید عارفی کی غزل

    خودی میرا پتہ دیتی ہے اب بھی

    خودی میرا پتہ دیتی ہے اب بھی مجھے مجھ سے ملا دیتی ہے اب بھی گزشتہ موسموں کی نرم خوشبو تعلق کا پتہ دیتی ہے اب بھی کبھی رہ رہ کے اک گمنام خواہش سفر کا حوصلہ دیتی ہے اب بھی یہ آوارہ مزاجی دشت جاں میں نیا جادو جگا دیتی ہے اب بھی امید صبح نو ہر شام غم میں تھکن ساری مٹا دیتی ہے اب ...

    مزید پڑھیے

    بے سبب ٹھیک نہیں گھر سے نکل کر جانا

    بے سبب ٹھیک نہیں گھر سے نکل کر جانا جستجو ہو کوئی دل میں تو سفر پر جانا دن کے تپتے ہوئے موسم میں بھٹکنا ہر سو شام آئے تو پرندوں کی طرح گھر جانا ہر گزرتے ہوئے بے رنگ سے موسم کے لیے اک نئی رت کے نئے پھول یہاں دھر جانا لوگ جلتا ہوا گھر دیکھ کے خوش ہوتے ہیں اور ہم نے اسے اب اپنا مقدر ...

    مزید پڑھیے

    خشک ہونٹوں کی انا مائل ساغر کیوں ہے

    خشک ہونٹوں کی انا مائل ساغر کیوں ہے تو سمندر ہے تو یہ پیاس کا منظر کیوں ہے یہ فسوں کاریٔ احساس ہے یا عکس حیات آئنہ خانے کا ہر آئنہ ششدر کیوں ہے قرب ساحل بھی ٹھہرتی نہیں اب کشتیٔ جاں اتنا برہم مرے اندر کا سمندر کیوں ہے شعلہ شعلہ ہے ہر اک شاخ مری پلکوں کی پھر بھی آنکھوں میں حسیں ...

    مزید پڑھیے