Saeed Arifi

سعید عارفی

سعید عارفی کی نظم

    منتخب روزگار ابوالکلام آزادؔ

    قدم قدم پہ عقیدت سے سر ہے خم میرا چلا ہے سوئے رہ معتبر قلم میرا دل و دماغ کو اونچا بنا دیا جس نے فیوض علم سے اعلیٰ بنا یا جس نے بڑے خلوص سے دیتا تھا درس انسانی ہوئے ہیں جس کی بدولت ضمیر نورانی وہ جس نے راہ محبت دکھائی تھی ہم کو وہ جس نے رسم اخوت سکھائی تھی ہم کو وہ جس نے برتر و ...

    مزید پڑھیے

    وہ اک ستارہ

    وہ اک ستارہ جو آسماں کی بلندیوں سے اترا غلام ہندوستاں کی مہیب تاریکیوں میں چمکا جس نے ساکت فضاؤں کو ارتعاش بخشا شعور کو بیداریاں عطا کیں اور ضمیر کو جھنجھوڑا بے فکر ذہنوں کو فکر کی حرارت سے جوڑا دلوں میں شمع آزادئ وطن جلائی کہ جس سے دلوں کے سیاہ خانے منور ہوئے وہ جانتا تھا کہ آہن ...

    مزید پڑھیے

    سرمایہ

    کبھی بے کیفی اور بے چینی میں سفر پہ نکلو تو گھر سے دور ہونے کا احساس ہر لحظہ اے ولولے جگاتا ہے اور نئی خواہش کو آئینہ دکھاتا ہے بکھرتے ٹوٹتے لمحوں مجبوری اور مہجوری کے عالم میں بس یہی چیز کام آتی ہے

    مزید پڑھیے

    محرومی

    جیسے تاریکی میں سائے کھو جاتے ہیں اسی طرح مجھے یقین ہے کہ تم میرے نزدیک اور بہت نزدیک موجود ہو لیکن دکھائی نہیں دیتے میں اس تاریک ماحول میں پرچھائیوں کو چھوتا ہوں لیکن اس عمل میں میرے ہاتھ آتا ہے صرف ٹھنڈی راکھ کا ڈھیر

    مزید پڑھیے

    غالبؔ

    تم یہ کہتے ہو کہ قائل نہیں اسلاف کا میں سچ ہے یہ دور بھی اسلاف پرستی کا نہیں آج ہر جام سے لبریز مع ہستی سے جام دیروز میں یہ بادۂ رنگیں ہے کہیں تم نے سمجھا ہی نہیں فلسفۂ زیست ہے کیا کب میں کہتا ہوں کہ جھٹلا دو گزشتہ لمحے میں نے تو اور بھی چمکائے ہیں ماضی کے نقوش گل کئے ہوں گے تمہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2