لمحوں کا کرب
دل افسردہ کی
آرزوؤں کے
رمیدہ لمحو
تمہاری بے کیفی کے قافلے
رفتہ رفتہ حریم جاں سے گزر رہے ہیں
اور
تمہیں پتہ ہے
کہ
آسماں کی بلندیوں پہ پہنچ کے انسان
مردہ ہو چکا ہے
تو پھر
کشید جاں سے
نکال کر
کوئی حسین منظر
قطرہ قطرہ
حیات کی تشنگی کے
اس کاسۂ تہی میں ڈالو
تاکہ ثبات کی خاطر
بھٹکے ہوئے بے روح جسم کو
کچھ قرار آ جائے