Khursheed Alig

خورشید علیگ

خورشید علیگ کے تمام مواد

21 غزل (Ghazal)

    یہ ماہ پارے تو دل کو لبھائے جاتے ہیں

    یہ ماہ پارے تو دل کو لبھائے جاتے ہیں جو غم کے مارے ہیں دل کو گنوائے جاتے ہیں شب فراق یہ آکاش سے خبر آئی کہ غم نصیبوں سے تارے گنائے جاتے ہیں حیات کیا ہے کہ افسانہ درد ناکی کا فسانے درد کے ہر دم سنائے جاتے ہیں جہان کہنہ ہو یا نو یہ وہ جہاں ہے جہاں تماشے غم کے ہمیشہ دکھائے جاتے ...

    مزید پڑھیے

    یہ نہ سمجھو غبار ہیں ہم لوگ

    یہ نہ سمجھو غبار ہیں ہم لوگ خوشبوؤں کی قطار ہیں ہم لوگ لوگ ہم کو خزاں سمجھتے ہیں جب کہ تازہ بہار ہیں ہم لوگ یہ شرافت نہیں تو پھر کیا ہے دشمنوں پر نثار ہیں ہم لوگ وہ بھی کانٹوں سے کم نہیں ہیں کچھ جن کی نظروں میں خار ہیں ہم لوگ تھوڑا ہم سے بھی پیار کر لیجے قابل اعتبار ہیں ہم ...

    مزید پڑھیے

    قصہ تباہیوں کا سنایا نہ جائے گا

    قصہ تباہیوں کا سنایا نہ جائے گا دل میں جو غم چھپا ہے بتایا نہ جائے گا اخلاق سے حسیں کوئی دنیا میں شے نہیں یہ وہ چراغ ہے جو بجھایا نہ جائے گا آزاد اپنے آپ کو سمجھیں گے اس گھڑی جب خون بے بسوں کا بہایا نہ جائے گا ناحق بچھا رہا ہے جہاں سازشوں کا جال اسلام کا وجود مٹایا نہ جائے ...

    مزید پڑھیے

    چاندنی اب تو کھائے جاتی ہے

    چاندنی اب تو کھائے جاتی ہے روشنی دل جلائے جاتی ہے صبح ہوگی کبھی نہیں معلوم تیرگی دل بجھائے جاتی ہے زندگی دی گئی ہے جینے کو موت اس کو مٹائے جاتی ہے کوئی اپنا نہیں زمانے میں بے کسی جی دکھائے جاتی ہے کاش آ جائیں وہ اچانک سے سانس اب لڑکھڑائے جاتی ہے مرگ مجنوں سے شور ہے ...

    مزید پڑھیے

    ہم تغافل کو ابتدا سمجھے

    ہم تغافل کو ابتدا سمجھے اور وہ درد کی دوا سمجھے وہ تو بے گانگی میں تھے گویا اور ہم ان کو آشنا سمجھے شورش دل نے جو کہا ہم سے اس کو ہم حکم آپ کا سمجھے ان سے قائم ہوا ہے نقش وفا کوئی ان کو نہ بے وفا سمجھے آشنائے مراد ساحل ہے وہ جو طوفاں کو ناخدا سمجھے کل سر بزم ان اشاروں سے کہیے ...

    مزید پڑھیے

تمام

3 نظم (Nazm)

    تحفہ

    سوچتا ہوں کہ تمہیں کون سا تحفہ بھیجوں اپنے ہونٹوں کی جلن اپنی نگاہوں کی تھکن اپنے سینے کی گھٹن اپنی امیدوں کا کفن جادۂ زیست پہ بکھرے ہوئے کانٹوں کی چبھن عمر بھر کا مرا سرمایہ یہی ہے اے دوست سوچتا ہوں کہ تمہیں کون سا تحفہ بھیجوں آرزو تھی کہ رخ غم کی چمک نذر کروں ترے مخمور تصور کی ...

    مزید پڑھیے

    ضد

    دونوں کو بس ایک ہی ضد ہے میں کیوں اس کو یاد دلاؤں کہ کبھی آج ہی کے دن ہم تھے ملے تھے ہر سو بڑے خوشیوں کے سلسلے لیکن آج پھر یہ کیسی ہے بد گمانی اور کتنے گلے کہ جیسے کبھی زمیں آسماں نا ملے

    مزید پڑھیے

    ابو کی یاد میں

    اب رہا کون مجھے آس دلانے والا گھپ اندھیروں میں دیا گھر کا جلانے والا خواب غفلت سے جو بیدار کیا کرتا تھا سو گیا آج وہ کیوں مجھ کو جگانے والا جب کہ منزل کی تجسس میں تھا گمراہ سفر چل دیا چھوڑ کے کیوں راہ دکھانے والا روٹھ جانے کا رویہ یہ مناسب تو نہ تھا روٹھ کیوں مجھ سے گیا مجھ کو ...

    مزید پڑھیے

7 قطعہ (Qita)

تمام