تازہ غموں نے پچھلے غموں کو بھلا دیا
تازہ غموں نے پچھلے غموں کو بھلا دیا جب نقش دوسرا بنا پہلا مٹا دیا دل پر کسی ملال کا ہوتا نہیں اثر خورشیدؔ ہم کو درد نے پتھر بنا دیا
تازہ غموں نے پچھلے غموں کو بھلا دیا جب نقش دوسرا بنا پہلا مٹا دیا دل پر کسی ملال کا ہوتا نہیں اثر خورشیدؔ ہم کو درد نے پتھر بنا دیا
یوں تو کہنے کو بہت راہ میں غم خوار ملے زیست کے موڑ پہ آزار ہی آزار ملے مجھ کو دیوانہ کہا کرتے تھے جو عرصے سے آج خود چاک گریباں سر بازار ملے
پیچھا چھڑا سکے نہ کبھی بندگی سے ہم نیکی سے بندھ گئے کبھی گاہے بدی سے ہم اے ہادیٔ عظیم فقط تیرا واسطہ باندھے ہوئے ہیں ساری امیدیں تجھی سے ہم
جسے ہم موم کا گھر جانتے تھے وہ نکلا سر بسر پتھر ہی پتھر گئے تھے جسم و جاں تک وارنے ہم اٹھا لائے ہیں آنکھوں میں سمندر
اپنی تخلیق سے ہوتی ہے محبت سب کو سوچتا ہوں کہ ذرا بھی غم فردا نہ کروں جس کی تخلیق ہے وہ جانے مجھے کیا لینا زندگی کے لیے اب کوئی بھی سودا نہ کروں
مت پوچھئے دامن کیوں اشکوں سے بھگویا ہے اک داغ پرانا تھا اس داغ کو دھویا ہے امید نہیں لیکن حسرت ہے ابھی باقی اک دن وہ پکارے گا جس نے ہمیں کھویا ہے
سارا منظر ہی اجنبی ہے یہاں صرف اک وہم دوستی ہے یہاں شہر میں کب کا چھوڑ ہی دیتا لیکن اک شخص آدمی ہے یہاں