تحفہ

سوچتا ہوں کہ تمہیں کون سا تحفہ بھیجوں
اپنے ہونٹوں کی جلن اپنی نگاہوں کی تھکن
اپنے سینے کی گھٹن اپنی امیدوں کا کفن
جادۂ زیست پہ بکھرے ہوئے کانٹوں کی چبھن
عمر بھر کا مرا سرمایہ یہی ہے اے دوست
سوچتا ہوں کہ تمہیں کون سا تحفہ بھیجوں


آرزو تھی کہ رخ غم کی چمک نذر کروں
ترے مخمور تصور کی مہک نذر کروں
اپنے بازوئے تخیل کی لچک نذر کروں
ساغر فکر مگر آج تہی ہے اے دوست
سوچتا ہوں کہ تمہیں کون سا تحفہ بھیجوں


زندگی چند حبابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
علم دو چار کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میری منزل مرے خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
اپنی منزل تو بہت دور ابھی ہے اے دوست
سوچتا ہوں کہ تمہیں کون سا تحفہ بھیجوں