ضد

دونوں کو بس ایک ہی ضد ہے
میں کیوں اس کو یاد دلاؤں
کہ کبھی
آج ہی کے دن ہم تھے ملے
تھے ہر سو بڑے خوشیوں کے سلسلے
لیکن آج پھر
یہ کیسی ہے بد گمانی اور کتنے گلے
کہ جیسے کبھی زمیں آسماں نا ملے