قصہ تباہیوں کا سنایا نہ جائے گا

قصہ تباہیوں کا سنایا نہ جائے گا
دل میں جو غم چھپا ہے بتایا نہ جائے گا


اخلاق سے حسیں کوئی دنیا میں شے نہیں
یہ وہ چراغ ہے جو بجھایا نہ جائے گا


آزاد اپنے آپ کو سمجھیں گے اس گھڑی
جب خون بے بسوں کا بہایا نہ جائے گا


ناحق بچھا رہا ہے جہاں سازشوں کا جال
اسلام کا وجود مٹایا نہ جائے گا


ثابت قدم ہیں آج بھی ہم اپنے قول پر
دشمن کو ہم سے دوست بنایا نہ جائے گا


اس نے وفا کا رنگ کچھ ایسا چڑھا دیا
اب دل پہ کوئی رنگ چڑھایا نہ جائے گا


ظالم کا ناز اٹھاتے ہیں خورشیدؔ سب مگر
مجھ سے کبھی یہ ناز اٹھایا نہ جائے گا