یہ ماہ پارے تو دل کو لبھائے جاتے ہیں
یہ ماہ پارے تو دل کو لبھائے جاتے ہیں
جو غم کے مارے ہیں دل کو گنوائے جاتے ہیں
شب فراق یہ آکاش سے خبر آئی
کہ غم نصیبوں سے تارے گنائے جاتے ہیں
حیات کیا ہے کہ افسانہ درد ناکی کا
فسانے درد کے ہر دم سنائے جاتے ہیں
جہان کہنہ ہو یا نو یہ وہ جہاں ہے جہاں
تماشے غم کے ہمیشہ دکھائے جاتے ہیں
اگر ہیں حرف غلط کی طرح نہیں ہم لوگ
جہاں کے لوح سے پھر کیوں مٹائے جاتے ہیں
عجیب حال ہے دنیا کی بزم کا خورشیدؔ
قدم قدم پہ یہاں دل جلائے جاتے ہیں