Khursheed Alig

خورشید علیگ

خورشید علیگ کی نظم

    تحفہ

    سوچتا ہوں کہ تمہیں کون سا تحفہ بھیجوں اپنے ہونٹوں کی جلن اپنی نگاہوں کی تھکن اپنے سینے کی گھٹن اپنی امیدوں کا کفن جادۂ زیست پہ بکھرے ہوئے کانٹوں کی چبھن عمر بھر کا مرا سرمایہ یہی ہے اے دوست سوچتا ہوں کہ تمہیں کون سا تحفہ بھیجوں آرزو تھی کہ رخ غم کی چمک نذر کروں ترے مخمور تصور کی ...

    مزید پڑھیے

    ضد

    دونوں کو بس ایک ہی ضد ہے میں کیوں اس کو یاد دلاؤں کہ کبھی آج ہی کے دن ہم تھے ملے تھے ہر سو بڑے خوشیوں کے سلسلے لیکن آج پھر یہ کیسی ہے بد گمانی اور کتنے گلے کہ جیسے کبھی زمیں آسماں نا ملے

    مزید پڑھیے

    ابو کی یاد میں

    اب رہا کون مجھے آس دلانے والا گھپ اندھیروں میں دیا گھر کا جلانے والا خواب غفلت سے جو بیدار کیا کرتا تھا سو گیا آج وہ کیوں مجھ کو جگانے والا جب کہ منزل کی تجسس میں تھا گمراہ سفر چل دیا چھوڑ کے کیوں راہ دکھانے والا روٹھ جانے کا رویہ یہ مناسب تو نہ تھا روٹھ کیوں مجھ سے گیا مجھ کو ...

    مزید پڑھیے