تحفہ
سوچتا ہوں کہ تمہیں کون سا تحفہ بھیجوں اپنے ہونٹوں کی جلن اپنی نگاہوں کی تھکن اپنے سینے کی گھٹن اپنی امیدوں کا کفن جادۂ زیست پہ بکھرے ہوئے کانٹوں کی چبھن عمر بھر کا مرا سرمایہ یہی ہے اے دوست سوچتا ہوں کہ تمہیں کون سا تحفہ بھیجوں آرزو تھی کہ رخ غم کی چمک نذر کروں ترے مخمور تصور کی ...