چاندنی اب تو کھائے جاتی ہے
چاندنی اب تو کھائے جاتی ہے
روشنی دل جلائے جاتی ہے
صبح ہوگی کبھی نہیں معلوم
تیرگی دل بجھائے جاتی ہے
زندگی دی گئی ہے جینے کو
موت اس کو مٹائے جاتی ہے
کوئی اپنا نہیں زمانے میں
بے کسی جی دکھائے جاتی ہے
کاش آ جائیں وہ اچانک سے
سانس اب لڑکھڑائے جاتی ہے
مرگ مجنوں سے شور ہے خورشیدؔ
زندگی یوں بھی ہائے جاتی ہے