جگر مرادآبادی: میرا پیغام ہے محبت جہاں تک پہنچے

 

انہیں مشاعروں کی جان سمجھا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو ان کا ترنم اور خوبصورت لحن تھا اور دوسری وجہ ان کے کلام کے غنائیت اور سریلاپن۔۔۔  ان کے شعروں میں ایسی برجستگی اور روانی ہوتی تھی کہ سامعین کو سنتے سنتے ہی ازبر ہو جاتے تھے۔  یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کے اشعار نہ صرف زبان زد عام ہیں بلکہ کئی اشعار تو غالب کی طرح ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔
اس مختصر سے تعارف سے اہل ذوق کرم فرماؤں کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ میں کس کا ذکر کر رہا ہوں۔
جی ہاں! میں جگر مراد آبادی کا ذکر کر رہا ہوں... وہی جگر جو عشق کے اسرار و رموز اس خوبی سے زیب قرطاس کرتے ہیں کہ پڑھنے والا جھوم جاتا ہے ۔
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

شاید ہی کوئی اردو پڑھنے اور سمجھنے والا شخص ہو گا جس نے جگر کے اس شعر کو زندگی میں کہیں پڑھا یا سنا نہ ہو ۔۔۔ بلکہ ہم میں سے اکثر نے تو اسے کہیں نہ کہیں برتا بھی ہوگا ۔
جگر مراد آبادی کا اصل نام علی سکندر تھا۔ وہ 6 اپریل 1929ء کو بھارت کی ریاست اترپردیش کے شہر مراد آباد میں پیدا ہوئے۔ جگر ان کا تخلص تھا اور مراد آباد میں پیدا ہونے کی نسبت سے علی سکندر جگر مراد آبادی کے ادبی نام سے مشہور ہوئے جگر کو شاعری وراثت میں ملے تھے کیونکہ آپ کے والد مولوی علی نظر اور چچا مولوی علی ظفر بھی بہت اچھے شاعر تھے۔ جگر نے ایک مقامی مدرسہ سے عربی فارسی اور اردو زبان سیکھی۔ اس کے بعد وہ لکھنؤ اپنے چچا کے پاس آگئے۔ آپ کو حیرت ہوگی کے وہ جگر مراد آبادی جنہیں بھارت کی حکومت نے "پدما بھوشن" کے خطاب سے نوازا, انہیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا اور جنہیں علیگڑھ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی, وہ نویں جماعت میں دو بار فیل ہونے کے بعد پڑھائی گا ارادہ ترک کر
بیٹھے تھے.
جگر نوعمری سے ہی شاعری اور شراب کے شوقین تھے۔ شعر کہنا انہوں نے بارہ تیرہ سال کی عمر میں ہی شروع کر دیا تھا۔ پندرہ سال کے ہوئے تو میں نوشی کی لت لگ گئی۔ بعد ازاں انہوں نے مے نوشی تو ترک کر دی لیکن شاعری تادمِ مرگ ان کے ساتھ رہی۔ جگر نے تین شاعری کی کتب لکھیں۔ جن کے نام "داغ جگر" , "شعلہ طور "اور " آتش گل" ہیں. جگر کا 9 دسمبر 1960 گونڈہ میں انتقال ہوا گونڈہ میں ایک کالونی "جگر گنج" اور ایک اسکول "جگر میموریل انٹر کالج" ان کے نام سے منسوب ہے. جگر خود کو فطرت شناس شاعر کہتے تھے. ان کا خیال تھا کہ شاعر فطرت کے رازوں کا امین ہوتا ہے کہتے ہیں:
راز جو سینہ فطرت میں نہاں ہوتا ہے
سب سے پہلے دلِ شاعر میں عیاں ہوتا ہے

جگر کی لکھی ہوئی یہ غزل استاد نصرت فتح علی خان نے بھی گا رکھی ہے اور کیا خوب گائی ہے۔
آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے
آج کیا بات ہے کہ پھولوں کا
رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے
جگر کے کلام میں وہ سلاست اور روانی ہے کہ انسان پڑھتا ہے تو پڑھتا ہی چلا جاتا ہے ۔اوپر درج کی گئی غزل کو اگر کسی مْغنی نے نہ بھی گایا ہو تب بھی چھوٹی بحر میں لکھی گئی یہ دلفریب غزل اپنے اندر وہ دریا سی روانی رکھتی ہے کہ تحت الفظ میں پڑھتے ہوئے بھی قاری سْر، لَے اور نغمگی کے احساسات سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ جگر کی ایک اور غزل جو اپنے اپنے انداز میں کی گانے والوں نے گا رکھی ہے۔۔۔ کوئی محفل سماع ہو ، محفلِ غزل ہو  یا شعر و نغمہ کی محفل ۔۔۔ کسی نہ کسی رنگ میں یہ غزل کم و بیش ہر بزم کا حصہ ہوتی ہے :
یہ ہے میکدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے
یہ حرم نہیں ہے اے شیخ جی یہاں پارسائی حرام ہے
جو ذرا سی پی کے بہک گیا اسے میکدے سے نکال دو
یہاں تنگ نظر کا گزر نہیں یہاں اہل ظرف کا کام ہے
یہ جناب شیخ کا فلسفہ ہے عجیب سارے جہان سے
جو وہاں پیو تو حلال ہے جو یہاں پیو تو حرام ہے
طویل بحر کی غزل میں نغمگی، تغزل ، سلاست اور روانی کا اس درجہ پایا جانا کہ بے ساختہ مغنی گانے پر مجبور ہوجائے۔ یہ اہتمام صرف جگر جیسے مشاق اور فطری شاعر کا ہی خاصہ ہو سکتا ہے۔ انہیں تمام اوصاف سے متصف جگر کی یہ غزل بھی ان کی ایک نمائندہ غزل ہے :
اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے
سمٹے تو دلِ عاشق پھیلے تو زمانہ ہے
یہ کس کا تصور ہے یہ کس کا افسانہ ہے
جو اشک ہے آنکھوں میں تسبیح کا دانہ ہے
ہم عشق ماروں کا اتنا ہی فسانہ ہے
رونے کو نہیں کوئی ہنسنے کو زمانہ ہے
کیا اس نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے
اور اپنے بارے میں اس نے کیا خوب کہا ہے کہ:
شاعر ہوں میں شاعر ہوں میرا ہی زمانہ ہے
فطرت مرا آئینہ قدرت مرا شانہ ہے
جگر یوں تو مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے لیکن نعتیہ مشاعرے نہیں پڑھتے تھے کیونکہ خود کو اس قابل نہیں سمجھتے تھے کہ  مدحت رسول کریں۔ ایک بار بہت اصرار پر ایک نعتیہ مشاعرے میں شرکت کے لیے چلے گئے۔ حاضرین نے شدید احتجاج کیا لیکن جو نہی انہوں نے اپنا کلام پیش کرنا شروع کیا ۔ محفل میں سناٹا چھا گیا۔
جگر نے جو اپنے بارے میں یہ کہا تھا ۔۔۔. غلط نہیں کہا تھا کہ:
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

متعلقہ عنوانات