بانگ درا کی ایک خوب صورت نظم محبت کے معانی کیسے سمجھاتی ہے!

’محبت‘ ایک آفاقی اور عالمگیر جذبہ ہے لیکن بدقسمتی سے دورحاضر کا انسان اس جذبے کی حقیقت اور اس کے وسیع معانی سے ناآشنا اور ناواقف ہے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ محبت کے تصور کو محض مردو زن کے مخصوص جذبات میں مقید کردیا گیا ہے۔ محبت کے خوب صورت اور جامع تصور کو سمجھنے کے لیے علامہ اقبال ؒ کی شہرہ آفاق نظم  کا مطالعہ ضروری ہے  جو اسی نام یعنی ’محبت‘ سے موسوم  ہے۔ اقبال ، بانگ درا کی اس نظم میں محبت کی تخلیق کو کائنات کی تخلیق کے ساتھ مربوط کرتے ہیں ۔ وہ ان ابتدائی ایام کا نقشہ اپنے خداداد تخیل سے اس طور کھینچتے نظر آتے ہیں:

عروسِ شب کی زلفیں تھیں ابھی نا آشنا خم سے

ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذتِ رَم سے

قمر    اپنے    لباسِ   نو    میں    بیگانہ    سا   لگتا     تھا

نہ تھا واقف ابھی گردش کے آئینِ مسلم سے

ابھی امکاں کے ظلمت خانے سے ابھری ہی تھی دنیا

مذاقِ      زندگی     پوشیدہ      تھا      پہنائے    عالم      سے

کمالِ    نظمِ     ہستی    کی    ابھی   تھی    ابتدا   گویا

ہویدا     تھی     نگینے    کی    تمنا    چشمِ    خاتم    سے

ابتدائے آفرینش میں محبت کے جذبے کو کس طور تخلیق کیا گیا، اسے بھی اقبال ایک کہانی کی صورت دیتے نظر آتے ہیں:

سنا    ہے    عالمِ   بالا     میں   کوئی    کیمیا گر      تھا

صفا تھی جس کی خاکِ پا میں بڑھ کر ساغرِ جم سے

کیمیا گری یوں تو جدید کیمسٹری کی ابتدائی شکل تھی، لیکن اپنےابتدائی زمانے میں کیمیا گری کی اصطلاح مختلف دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنے کے تجربات کے لیے استعمال کی  جاتی تھی۔ اقبال نے اسی اصطلاح کو بہ انداز دگر استعمال کیا ہے ، گویا ایک ایسا تخیلاتی کردار عالم بالا میں موجود تھا جومختلف اشیاء کو سونے میں بدل دینے کا ہنر جانتا تھا۔

لکھا تھا عرش کے پائے پہ اک اکسیر کا نسخہ

چھپاتے تھے فرشتے جس کو چشمِ روحِ آدم سے

نگاہیں تاک میں رہتی تھیں لیکن کیمیا گر کی

وہ اس نسخے کو بڑھ کر جانتا تھا اسمِ اعظم سے

بڑھا تسبیح خوانی کے بہانے عرش کی جانب

تمنائے   دلی     آخر   بر    آئی   سعیِ    پیہم     سے

’کیمیا گر‘ کو بالآخر سعی پیہم سے یہ نسخہ ہاتھ آگیا۔ اب ذرا دیکھیے کہ اس نسخے سے اس نے جو مرکب تیار کیا وہ کیا تھا اور اس کے اجزائے ترکیبی کیا کیا ہیں؟

پھرایا   فکرِ   اجزا     نے    اسے   میدانِ    امکاں    میں

چھپے گی کیا کوئی شے بارگاہِ حق کے محرم سے

چمک تارے سے مانگی، چاند سے داغِ جگر مانگا

اُڑائی تیرگی تھوڑی سی شب کی زلفِ برہم سے

تڑپ   بجلی    سے   پائی ، حور    سے   پاکیزگی   پائی

حرارت لی نفس ہائے مسیحِ ابن مریم سے

ذرا سی پھر ربوبیت سے شانِ بے نیازی لی

ملک سے عاجزی، اُفتادگی تقدیرِ شبنم سے

پھر ان اجزا کو گھولا چشمہَ حیوان کے پانی میں

مرکب نے’ محبت‘ نام پایا عرشِ اعظم سے

یہ وہ مرکب ہے جسے محبت کا نام دیا گیا اور جس کے اجزائے ترکیبی میں بجلی کی تڑپ، حور  کی پاکیزگی،ابن مریم کے نفس کی حرارت، رب کریم کی شان بے نیازی ، فرشتوں کی عاجزی اور قطرہ شبنم کی نرمی و افتادگی موجود تھی۔ کیسے خوب صورت استعارے ہیں اور کیا کمال تشبیہات ہیں۔ اب یہ وہ محبت ہے جس نے اس کائنات کے ہر ذرے کو جنبش عطا کی اور وہ لطف خواب کو چھوڑ کر زندگی سے ہمکنار ہوا۔ یہ وہ جذبہ ہے جس نے ماں باپ کو اولاد سے، بھائی کو بھائی سے، دوست کو دوست سے  جوڑا اور اسی  سے کائنات کا ہر مثبت انسانی  جذبہ تشکیل پایا:

 مہوَّس نے یہ پانی ہستی نوخیز پر چھڑکا

گرہ کھولی ہُنر نے اس کے گویا کارِ عالم سے

ہوئی جنبش عیاں ، ذروں نے لطفِ خواب کو چھوڑا

گلے ملنے لگے اٹھ اٹھ کے اپنے اپنے ہمدم سے

خرامِ     ناز    پایا       آفتابوں    نے، ستاروں        نے

چٹک غنچوں نے پائی، داغ پائے لالہ زاروں نے

متعلقہ عنوانات