کہانی: رسول پاکﷺ نے خانہ کعبہ میں حجر اسود کیسے رکھا؟
جس زمانے میں ہمارے رسول پاکﷺ نے اپنے نبی ہونے کا اعلان فرمایا اس سے پانچ سال پہلے کا ذکر ہے کہ ایک دن مکہ کے سب لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ خانہ کعبہ کی نئی عمارت بنا ئی جائےکیونکہ پرانی عمارت بار بار سیلاب آنے کی وجہ سے بہت کمزور ہوگئی ہےپھر اس کی دیواریں بھی نیچی ہیں اور ان پر چھت بھی نہیں ہے۔نئی عمارت بنانے پر تو سب نے اتفاق کر لیالیکن اس کو بنانے کے لیے عمارت کو گرانا ضروری تھا۔
اب سوال پیدا ہوا کہ پرانی عمارت کو کون گرائے۔تمام لوگ اس عمارت کو بہت مقدس سمجھتے تھے اوران کا خیال تھا کہ جو شخص اس پاک عمارت کو گرانے کی کوشش کرے گا اس پر کوئی مصیبت آجائے گی۔ایک اور رکاوٹ یہ تھی کہ کعبے کے دروازے کے پاس ایک اندھا کنواں تھا جس میں لوگ چڑھاوے اور نذریں ڈالا کرتے تھے۔اس کنوئیں میں لوگوں کو کئی بار ایک بڑا سانپ نظر آیا۔لوگوں کو ڈر تھا کہ جو شخص کعبے کی پرانی عمارت کو چھیڑے گا یہ سانپ اس کو ڈس لےگا۔
خدا کی قدرت ایک دن یہ سانپ سر نکالے کنوئیں پر سے جھانک رہا تھا کہ ایک عقاب آیا اور چھپٹا مارکر اسے پکڑلے گیا۔یہ دیکھ کر لوگو ں میں جرات پیدا ہوئی اور ایک دن قریش کے ایک سردار ولید بن مغیرہ نے خانہ کعبہ کی پرانی عمارت کو یہ کہہ کر گرانا شروع کردیا کہ ’’اے اللہ ہم کسی برُی نیت سے پرانی عمارت کو نہیں ڈھا رہےہیں بلکہ ہم بھلائی کے سوا کچھ نہیں چاہتے۔‘‘
ولید کعبہ کے ایک حصے پر ضرب لگا کر رک گیا تاکہ دوسرے لوگ بھی اس کے ساتھ شریک ہوجائیں لیکن کوئی اس کی مدد کے لیے آگے نہ بڑھا۔یہ لوگ رات بھر انتظار کرتے رہے کہ دیکھیں ولید پر کیا آفت آتی ہےلیکن جب صبح کو انہوں نے دیکھا کہ اسے کچھ بھی نہیں ہوا اور وہ بھلا چنگا ہےتو وہ بھی اس کے ساتھ شریک ہوگئے اور بہت جلد پرانی عمارت کو گرا کر زمین کے برابر کردیا۔اس کے بعد سب لوگ زور و شور سے نئی عمارت بنانے میں مشغول ہوگئے۔خوش قسمتی سے ان کو نئی عمارت کے لیے کافی مقدار میں سنگ مرمر اور دوسرا سامان سستے داموں مل گیا تھا۔ہوا یوں کہ چند دن پہلے رومی تاجروں کا ایک جہاز شعیبہ(جدہ)کی بندرگاہ کے قریب طوفان سے خشکی پر چڑھ کر ٹوٹ گیا تھا۔اس جہاز پر سنگ مرمر اور لوہے لکڑی کا بہت ساسامان لدا ہواتھاجسے رومی تاجر ایک گرجا بنانے کے لئے مصر سے حبش لے جارہے تھے۔مکے کے لوگو ں نے سارا سامان رومی تاجروں سے خرید لیا تھا تاکہ اسے کعبہ کی نئی عمارت میں لگائیں۔
کعبہ کی نئی عمارت بنانے میں قریش کے تمام قبیلے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھےکوئی پتھر ڈھوتا،کوئی گارا لاتا کوئی پتھروں کو ایک دوسرے پر رکھتا۔اس طرح تھوڑے ہی دنوں میں دیواریں ڈیڑھ ڈیڑھ گزاونچی ہوگئیں۔
ایک خوفناک واقعہ پیش آیا جس سے تعمیرکا کام رک گیا۔ہوایوں کہ ہر قبیلے نے دعویٰ کردیا کہ وہی حجرا سود کو اٹھا کر اپنی اصلی جگہ پر رکھنے کا حق دار ہے۔’’حجراسود ‘‘کا مطلب ہے کالا پتھر ۔یہ پتھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں سے کعبہ کی دیوار میں لگایا تھااور عرب کے لوگ اس کو بہت متبرک سمجھتے تھے۔مسلمانوں کے نزدیک بھی یہ بڑا مقدس پتھرہے۔حج اورعمرہ کے وقت خانہ کعبہ کے گرد پھیرا (طواف )اسی سے شروع کیا جاتا ہے اور اس کو بوسہ دیا جاتا ہے۔حجر اسود کوئی پندرہ انچ لمبا اور اسی قدر چوڑا ہے۔یہ پتھر خانہ کعبہ کی ایک دیوار میں ڈیڑھ گز کی بلندی پر لگا ہوا تھا۔اسی لئے جب نئی عمارت کی دیواریں دیڑھ گز بلند ہوئیں تو ہر قبیلے کی خواہش ہوئی کہ وہی اس پاک پتھر کو دیوار میں لگانے کی عزت حاصل کرے ۔
اس بات پر سب قبیلے لڑنے مر نے پر تل گئے۔بعض قبیلوں کے لوگوں نے تو پیالوں میں انسانی خون بھرکر اس میں اپنی انگلیاں ڈبوئیں اور قسم کھائی کہ وہی حجراسود کو کعبہ کی دیوار میں لگائیں گے اگر کوئی انہیں روکے گا تو ان کا بچہ بچہ اپنے اس حق کی خاطر کٹ مرے گا۔یہ جھگڑا چاردن تک چلتا رہا اور کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔
آخر قریش کا ایک بوڑھا سردار ابو اُمیہ بن مغیرہ اٹھا اور اس نے کہا:
’’اگر تم میں سے ہر قبیلہ اپنی بات پر اڑا رہا تو امن کے اس شہر میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی اس طرح ہم سب برباد ہوجائیں گے۔بہتر یہ ہے کہ اس معاملے کو خدا پر چھوڑ دو۔میری مانو تو جو شخص کل صبح سب سے پہلے کعبہ میں آئے وہی اس جھگڑے کا فیصلہ کرے اور سب لوگ اس کو قبول کرلیں۔‘‘
تمام قبیلے ابو اُمیہ بن مغیرہ کی بہت عزت کرتے تھے۔انہوں نے اس کی رائے پسند کی اور سب ’’منظور ہے منظور ہے‘‘کے نعرے لگانے لگے۔
اس کے بعد تمام قبیلے بڑی بے چینی سے صبح کا انتظار کرنے لگے۔صبح ہوئی تو یکایک انہوں نے دیکھا کہ کعبہ میں سب سے پہلے آنے والے ہمارے رسول پاک ﷺ تھے۔آپ ﷺ کو دیکھ کر لوگ دُورہی سے چلانے لگے۔
’’یہ تو امین آرہا ہےہم اس کے فیصلے پر راضی ہیں۔یہ تو محمد ﷺ ہیں۔‘‘
رسول پاک ﷺکی عمر مبارک ۳۵ سال کی تھی اور آپ نے ابھی نبوت کا اعلان نہیں فرمایا تھا لیکن مکہ کا ہر شخص آپ ﷺ کو صادق اور امین کہتا تھااور آپ ﷺ کی بہت عزت کرتا تھا۔آپ ﷺ نے لوگوں سے اس جھگڑے کا حال سنا تو یہ کیا کہ ایک چادر منگوائی۔حجراسود کو اس میں رکھا اور پھر فرمایا کہ ہرقبیلے کا سردار یا کوئی دوسرا آدمی جس کو وہ پسند کرے،ایک طرف سے اس چادر کو پکڑے اور سب مل کر حجراسود کو اٹھائیں۔جب پتھر اس مقام تک پہنچ گیا ۔جہاں اس کو لگانا تھا تو آپ ﷺنے اسے اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر وہاں لگا دیا۔اس طرح ایک خوفناک جھگڑا آناَفاناّختم ہوگیا۔بھڑکی ہوئی آگ بجھ گئی اور پھر سب مل کر نئی عمارت کو مکمل کرنے میں مشغول ہوگئے۔