پتا بتا کی دوسری تدریسِ اردو کانفرنس کا کامیاب انعقاد
اردو کی تدریس (اردو ٹیچنگ) میں تازگی اور توانائی لانے کے لیے سرگرم ادارہ پتا بتا کے تحت منعقد ہونی والی "تدریسِ اردو کانفرنس 2023" کا کامیاب انعقاد، 500 سے زائد رجسٹرڈ حاضرین، 3300 سے زائد فیس بک لائیو رسائی، 7 ممالک کے شرکا اور 14 بین الاقوامی مقررین اور تربیت کاروں (ٹرینرز) کی شرکت۔ ذیل میں کانفرنس کی تفصیلات ملاحظہ کیجیے۔
پاکستانی تنظیمِ اساتذہ برائے تدریسِ اُردو (پتا بتا) کے زیر اہتمام دوسری تدریسِ اُردو کانفرنس 25 فروری بروز ہفتہ الحمد للہ خوش اسلوبی سے منعقد ہوئی۔ کانفرنس میں پاکستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے وال14 مختلف مقررین نے خطاب کیا یا تربیتی نشستیں پیش کیں۔ کانفرنس کے شرکاء کا تعلق بھی مختلف ممالک سے تھا۔ پاکستان کے علاوہ بھارت، برطانیہ، سویڈن، اومان اور امریکہ سے بیسیوں افراد نے شرکت کی۔ زُوم میٹنگ کے علاوہ فیس بُک لائیو پر بھی اردو کے اساتذہ اور اردو زبان کے شائقین کانفرنس کی مختلف نشستوں سے مستفید ہوئے۔ تدریسِ اردو کانفرنس کے لیے نافع پاکستان اور اردو اِن یوکے کا اشتراک اور آغاخان یونیورسٹی کا خصوصی تعاون حاصل تھا۔اس کانفرنس میں سویڈن اور فن لینڈ میں تعینات پاکستانی سفیر ظہور احمد نے خصوصی شرکت کی۔
پتا بتا کے بانی و سربراہ جناب طاہر جاوید نے اس کانفرنس کا جواز بیان کرتے ہوئے کہا کہ اردو کی تدریس ،نصاب،تدریسی مواد،امتحانات کا طریقہ کار،وغیرہمیں پچھلی نصف صدیسے کوئی بنیادی تبدیلی نظر نہیں آئی۔دنیا بھر میں زبان کی تدریس میں تجربہ اور تحقیق کے اثرات ہمارے ہاں مفقود ہیں ۔تدریس کے فرسودہ اور بوسیدہ انداز کی وجہ سےاُردو کے طلبہ میں ایک عمومی بیزاری پائی جاتی ہے۔ چنانچہ اردو زبان کی بقا،ترقی اور ترویج کے لیے اس کی تدریس میں تازگی اور توانائی لانے کی اشد ضرورت ہے۔ یکم جنوری 2022 کی افتتاحی کانفرنس کے انعقاد کے بعد اس سال دوسری تدرسیِ اردو کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد نئے دور کے تقاضوں کے مطابق اردو کو نئے انداز میں پڑھانے کے اصولوں اور طریقہ کار سے متعارف کروانا تھا۔
کانفرنس کی مکمل کارروائی یوٹیوب پر دیکھنے پر یہاں کلک کیجیےدوسری پتا بتا تدریسِ اردو کانفرنس میں چودہ قومی اور بین الاقوامی مقررین نے خطاب اور تربیت کار (ورکشاپس) منعقد کروائیں۔ کانفرنس کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا جس کی سعادت شاہد علی نے حاصل کی۔ نقابت کے فرائض زبیر شیخ اور پروفیسر علی اکبر نے نبھائے۔ خطبہ استقبالیہ طاہر جاوید نے پیش کیا۔ انھوں نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد اور انتظامات سے متعلق تمہیدی گفتگو کی۔ انھوں نے طالب علم کو اس کانفرنس کی افادیت کا اصل حقدار اور مستحق قرار دیا۔ یعنی اس کانفرنس میں شریک معلم اپنی لیاقت اور صلاحیت اس لیے بڑھائے کہ اس سے اس کے طالب علم کو فائدہ ہو۔ معروف صحافی اور سماجی کارکن زبیدہ مصطفیٰ نے اپنے کلیدی خطبے میں تعلیم و تدریس میں بچوں کے فطری میلان اور رجحان کے فروغ پر عمدہ گفت گو کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اردو تدریس میں موقع و محل کا خیال رکھنا چاہیے کیوں کہ بچوں کو جبراً زبان نہیں سکھائی جاسکتی۔ اس لیے بچوں کی فطرت اور جدید زمانے کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ان کے بعد نافع پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل پروفیسر محمد ابراہیم خان نے اردو بطور قومی زبان کے نفاذ کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ انگریزی میڈیم کو معیار کی علامت سمجھ لینا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔آغاخان یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر فرید پنجوانی نے آغا خان یونیورسٹی میں اردو تدریس کے لیے حالیہ اور مستقبل کے منصوبوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا۔ مزید ازاں انھوں نے اردو کے کلاسیکی ادب پر بہت خوب صورت روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ دل کی باتیں، جذبات و احساسات اردو شاعری کے سوا کسی اور انداز میں نہیں کہی جاسکتی ہیں۔ محترمہ یاسمین معتصم نے کہانی گوئی کے ذریعے تدریس کو دل بنانے کے ایسے طریقے سکھائے کہ حاضرین و سامعین میں ایک نئی زندگی بھر دی۔ ایسا لگتا تھا کہ سب خود کو ایک چھوٹا بچہ سمجھ کر کہانی سننے میں مصروف تھے۔ زبیر شیخ نے شاعری کی تدریس کی نئی جہتیں اور نئے زاویے متعارف کروائے۔ سویڈن اور فن لینڈ میں تعینات پاکستانی سفیرظہور احمد اور ڈاکٹر عالیہ عامر نے سویڈین میں اردو تدریس کے بارے میں گفتگو کی۔نیویارک یونیورسٹی سے وابستہ رومینہ قریشی نے پڑھنے اور لکھنے کی تدریس کے جدید اور موئثر طریقے نہایت دلکش اندازمیں بیان کیے۔ ڈاکٹر اکرام الدین ، جن کا تعلق جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے ہے، نے بھارت میں اردو کی تدریس کے طریقہ کار، مسائل اور تجاویز پر مدلل بحث کی ۔ مسز فرح ملک نے برطانیہ اردو کی تدریس کے نصاب اور طریقہ کار کاتعارف بیان کیا۔ مزید ازاں انھوں نے زبان سکھانے کے جدید طریقہ کار ای-پی-آئی کو تفصیلی انداز سے پیش کیا۔مانچسٹر یونیورسٹی کے اردو لیکچرارشیراز علی نے نظم، گیت اور فلموں کواردو تدریس میں جدید انداز میں استعمال کرنے کی تجاویز پیش کیں۔ آخری نشست میں طاہر جاوید صاحب نے لکھنا یوں سکھایا کہ مزا آگیا۔ انھوں نے لکھنے کی مہارت کو نئے رنگ اور نئے انداز سے سکھانے کے طریقہ کار سے متعارف کروایا۔ کانفرنس کے آخر ی حصے میں شمائلہ وقاص صاحبہ نے اپنے ادارے ایجوکیشننسٹس آف پاکستان کی اردو تدریس سے متعلق سرگرمیوں، کورسز اور کارگاہوں کا تعارف کروایا۔ نمل یونیورسٹی اسلام آباد کے صدرِ شعبہ پاکستانی زبانیں، ڈاکٹر عابد سیال نے اردو تدریس کے مسائل اور ان کے حل پر مختصر اور جامع گفت گو کی۔
کانفرنس کا اختتامی خطبہ پروفیسر علی اکبر نے دیا۔ انھوں نے اپنے خطبے میں اس کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر انتظامیہ اور شرکاء کو مبارک باد پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اردو زبان کی تدریس میں توانائی اور تازگی لانے کے لیے اس کانفرنس میں پیش کی گئی تجاویز اور تربیت گاہوں کے نتائج کمرا جماعت میں عملی انداز میں نظر آنے چاہیں۔ آخر میں انھوں نے کانفرنس کی مختصر روداد پیش کی۔
کانفرنس کی کارروائی فیس بک پر دیکھنے کے یہاں کلک کیجیے۔پاکستانی تنظیم اساتذہ برائے تدریس اُردو (پتا بتا) کا آغاز اپریل 2016 میں ہوا۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد اردو کی تدریس کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ گزشتہ چھ برس میں اس کے تحت تقریبا" 50 تربیتی ورکشاپ اور ایک کانفرنس منعقد ہو چکے ہیں جن سے مجموعی طور پر 1100 اساتذہ نے فائدہ اٹھایا۔ علاوہ ازیں ایک واٹس ایپ گروپ بھی بنایا گیا جو اس وقت تقریبا" 300 اساتذہ پر مشتمل ہے۔۔ اس میں مختلف تدریسی مسائل اور وسائل کا تبادلہ ہوتا ہے۔ مسائل کے حل تجویز کیے جاتے ہیں اور دلچسپ علمی اور ادبی مباحث بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔
پاکستانی تنظیمِ اساتذہ برائے تدریسِ اُردو (پتا بتا) کے بارے مزید جاننے کے لیے یہاں کلک کیجیے