Sabihuddin Shaibi

صبیح الدین شعیبی

صبیح الدین شعیبی کی غزل

    اک بکھرتے آشیاں کی بات ہے

    اک بکھرتے آشیاں کی بات ہے اک شکستہ سائباں کی بات ہے میرے ماتھے کے نشاں کی بات ہے ان کے سنگ آستاں کی بات ہے درد و غم کے قافلے کا ذکر ہے اشک کی موج رواں کی بات ہے روح کا رشتہ ہے یہ تیرا مرا یہ بھلا کب جسم و جاں کی بات ہے لوگ جو کہتے ہیں تم کو بے وفا تم بتاؤ یہ کہاں کی بات ہے زخم بھر ...

    مزید پڑھیے

    جس کو اتنا چاہا میں نے جس کو غزل میں لکھا چاند

    جس کو اتنا چاہا میں نے جس کو غزل میں لکھا چاند چھوڑ گیا ہے مجھ کو کیسے آج وہ میرا اپنا چاند اپنے چاند کی سوچوں میں گم بیٹھا تھا تنہائی میں جانے میرے دل کے سونے آنگن میں کب نکلا چاند چھپ جائے کبھی سامنے آئے کھیلے آنکھ مچولی کیوں میری جان مجھے لگتا ہے بالکل تیرے جیسا چاند دکھ ہو ...

    مزید پڑھیے

    اب اجازت دے کہ میں ہوں جاں بہ لب اے زندگی

    اب اجازت دے کہ میں ہوں جاں بہ لب اے زندگی موت آتی ہے بس اب حد ادب اے زندگی کس لیے اب تک جیا ہوں اور کیوں زندہ رہوں اپنے ہونے کا بتا مجھ کو سبب اے زندگی کیوں بنی ہے جان کی دشمن مری مجھ کو بتا تیرے پیچھے میں بھلا بھاگا ہوں کب اے زندگی حسن دولت دوست دنیا دل نظر ہر ایک شے چھوڑ جاؤں گا ...

    مزید پڑھیے

    مسلسل مجھ پہ یہ تیری عنایت مار ڈالے گی

    مسلسل مجھ پہ یہ تیری عنایت مار ڈالے گی کبھی فرقت کبھی اس درجہ قربت مار ڈالے گی غریب شہر کا کیا اس کو غربت مار ڈالے گی امیر شہر کو دولت کی چاہت مار ڈالے گی سڑک پر پایا جائے گا کسی دن میرا بھی لاشہ مجھے سچ بولتے رہنے کی عادت مار ڈالے گی یہ تیری دستگیری ایک دن لے ڈوبے گی مجھ کو مری ...

    مزید پڑھیے

    گرنے والی ہے بہت جلد یہ سرکار حضور

    گرنے والی ہے بہت جلد یہ سرکار حضور ہاں نظر آتے ہیں ایسے ہی کچھ آثار حضور کارواں یوں ہی بھٹکتا رہے ہر بار حضور نیک نیت نہ ہوں گر قافلۂ سالار حضور وہ جو از خود ہی بنے بیٹھے ہیں سردار حضور وقت اک دن انہیں لائے گا سر دار حضور خود کو دیتے ہیں وہ دھوکا یوں ہی بیکار حضور جو خطاؤں کا ...

    مزید پڑھیے

    رہ گیا دنیا میں وہ بن کر تماشا عمر بھر

    رہ گیا دنیا میں وہ بن کر تماشا عمر بھر جس نے اپنی زندگی کو کھیل سمجھا عمر بھر تم امیر شہر کے گھر کو جلا کر دیکھنا گھر میں ہو جائے گا مفلس کے اجالا عمر بھر ایسا لگتا ہے کہ اب وہ قبر تک جائے گی ساتھ دل کے خانوں میں نہاں تھی جو تمنا عمر بھر قرض میری قوم وہ کیسے چکائے گی بھلا سود خود ...

    مزید پڑھیے

    سوچتا ہوں میں کہ کچھ اس طرح رونا چاہیے

    سوچتا ہوں میں کہ کچھ اس طرح رونا چاہیے اپنے اشکوں سے ترا دامن بھگونا چاہیے زندگی کی راہ پر کیسے اکیلے ہم چلیں اس سفر میں ہم سفر کوئی تو ہونا چاہیے دل بہت چھوٹا ہے میرا اور جہاں میں غم بہت میں پریشاں ہوں کسے کیسے سمونا چاہیے بچہ روتا ہے مگر روتا ہے وہ تقدیر پر ماں سمجھتی ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    میں نے دیکھا ہے کیسا یہ سپنا نیا رات کے اس پہر

    میں نے دیکھا ہے کیسا یہ سپنا نیا رات کے اس پہر مجھ سے بچھڑا ہوا کوئی اپنا ملا رات کے اس پہر نیند کیوں اڑ گئی چین کیوں کھو گیا رات کے اس پہر یہ اچانک مرے ساتھ کیا ہو گیا رات کے اس پہر یوں لگا مجھ کو جیسے فضا خوشبوؤں سے مہکنے لگی پھر کسی کی گلی سے چلی ہے ہوا رات کے اس پہر دل میں ...

    مزید پڑھیے

    میں جو کہتا ہوں تو کجروی چھوڑ دے

    میں جو کہتا ہوں تو کجروی چھوڑ دے وہ یہ کہتی ہے تو دوستی چھوڑ دے میں یہ کہتا ہوں مجھ کو دوانہ بنا وہ یہ کہتی ہے دیوانگی چھوڑ دے جب میں تعریف کرتا ہوں اس کی کبھی تب وہ کہتی ہے بس شاعری چھوڑ دے جب کبھی دل کی باتیں بتاتا ہوں میں تب وہ کہتی ہے اب دل لگی چھوڑ دے جب میں کہتا ہوں ہے جان ...

    مزید پڑھیے

    چندا بولا پچھلی رات

    چندا بولا پچھلی رات آ جا پیارے چرخہ کات ایک خیال کا دولہا ہے پیچھے لفظوں کی بارات دل کا کھیل مقابل جان ہنس کر میں نے کھائی مات آج ملا ایسے کوئی جیسے بن بادل برسات اک دوجے کو دیں الزام شاید یوں بدلیں حالات خوشیاں بھی یوں ملتی ہیں جیسے نازل ہوں آفات

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2