سوچتا ہوں میں کہ کچھ اس طرح رونا چاہیے

سوچتا ہوں میں کہ کچھ اس طرح رونا چاہیے
اپنے اشکوں سے ترا دامن بھگونا چاہیے


زندگی کی راہ پر کیسے اکیلے ہم چلیں
اس سفر میں ہم سفر کوئی تو ہونا چاہیے


دل بہت چھوٹا ہے میرا اور جہاں میں غم بہت
میں پریشاں ہوں کسے کیسے سمونا چاہیے


بچہ روتا ہے مگر روتا ہے وہ تقدیر پر
ماں سمجھتی ہے کہ منے کو کھلونا چاہیے


اجنبی بستر یہ بولا رات کے پچھلے پہر
اے صبیحؔ بے وطن اب تجھ کو سونا چاہیے