رہ گیا دنیا میں وہ بن کر تماشا عمر بھر

رہ گیا دنیا میں وہ بن کر تماشا عمر بھر
جس نے اپنی زندگی کو کھیل سمجھا عمر بھر


تم امیر شہر کے گھر کو جلا کر دیکھنا
گھر میں ہو جائے گا مفلس کے اجالا عمر بھر


ایسا لگتا ہے کہ اب وہ قبر تک جائے گی ساتھ
دل کے خانوں میں نہاں تھی جو تمنا عمر بھر


قرض میری قوم وہ کیسے چکائے گی بھلا
سود خود کو بیچ کر جس کا اتار عمر بھر


جانتا ہوں مجھ کو ڈس لے گا وہ مار آستیں
جس کو اپنا خوں پلا کر میں نے پالا عمر بھر


زندگی نعمت تھی جس کو پا کے تم خوش تھے صبیحؔ
اب کہو کیا زندگی سے تم نے پایا عمر بھر