میں نے دیکھا ہے کیسا یہ سپنا نیا رات کے اس پہر

میں نے دیکھا ہے کیسا یہ سپنا نیا رات کے اس پہر
مجھ سے بچھڑا ہوا کوئی اپنا ملا رات کے اس پہر


نیند کیوں اڑ گئی چین کیوں کھو گیا رات کے اس پہر
یہ اچانک مرے ساتھ کیا ہو گیا رات کے اس پہر


یوں لگا مجھ کو جیسے فضا خوشبوؤں سے مہکنے لگی
پھر کسی کی گلی سے چلی ہے ہوا رات کے اس پہر


دل میں جاگی ہے کیسی تمنا نئی خود میں حیران ہوں
اک نئی آرزو نے مجھے چھو لیا رات کے اس پہر


ایک منزل بسی تھی نگاہوں میں جانے وہ کیا ہو گئی
اور خود بخود ایک گلشن بسا رات کے اس پہر


اس کی بکھری ہوئی لٹ نے الجھائے رکھا مجھے اور میں
چاہتا تھا ہٹا دوں نہ ممکن ہوا رات کے اس پہر


اور کیا کیجئے گا صبیحؔ اس کی اب آپ منظر کشی
پل جو آیا اور آ کر چلا بھی گیا رات کے اس پہر