Sabihuddin Shaibi

صبیح الدین شعیبی

صبیح الدین شعیبی کی غزل

    تو جو انجان ہے

    تو جو انجان ہے میری پہچان ہے رات سنسان ہے دل پریشان ہے تیرے بن زندگی کیسی ویران ہے یہ جو مسکان ہے حشر سامان ہے دل کا جو چور ہے دل کا مہمان ہے کیسا ذیشان ہے تیرا دربان ہے چارہ گر اک نظر اب چلی جان ہے یہ نگاہ کرم مجھ پہ احسان ہے

    مزید پڑھیے

    یوں شہر کے بازار میں کیا کیا نہیں ملتا

    یوں شہر کے بازار میں کیا کیا نہیں ملتا پر حسن میں ثانی کوئی تیرا نہیں نہیں ملتا جو کچھ دل ناکام نے چاہا نہیں ملتا منزل نہیں ملتی کبھی رستا نہیں ملتا لہجہ نہیں ملتا کبھی چہرہ نہیں ملتا دنیا میں ہمیں ایک بھی تم سا نہیں ملتا چھوڑا ہے جو اک گھر کو تو دوجا نہیں ملتا اب دل سا ترے ...

    مزید پڑھیے

    جسے خود سے جدا رکھا نہیں ہے

    جسے خود سے جدا رکھا نہیں ہے وہ میرا ہے مگر میرا نہیں ہے جسے کھونے کا مجھ کو ڈر ہے اتنا اسے میں نے ابھی پایا نہیں ہے نقوش اب ذہن سے مٹنے لگے ہیں بہت دن سے اسے دیکھا نہیں ہے سنا ہے پھول اب کھلتے نہیں ہیں تو کیا کھل کر وہ اب ہنستا نہیں ہے نگر چھوڑا ہے جب سے اس غزل نے کوئی شاعر غزل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2