جس کو اتنا چاہا میں نے جس کو غزل میں لکھا چاند

جس کو اتنا چاہا میں نے جس کو غزل میں لکھا چاند
چھوڑ گیا ہے مجھ کو کیسے آج وہ میرا اپنا چاند


اپنے چاند کی سوچوں میں گم بیٹھا تھا تنہائی میں
جانے میرے دل کے سونے آنگن میں کب نکلا چاند


چھپ جائے کبھی سامنے آئے کھیلے آنکھ مچولی کیوں
میری جان مجھے لگتا ہے بالکل تیرے جیسا چاند


دکھ ہو سکھ ہو رنج خوشی ہو مشکل ہو یا آسانی
ہر موسم میں ساتھ نبھائے میرا یار پرانا چاند


نفسا نفسی کا عالم ہے سب کو اپنی فکر پڑی
اپنی دھرتی اپنا امبر اپنا سورج اپنا چاند


چہروں سے خوشیاں اوجھل ہیں اور غموں سے دل بوجھل
اب کے اپنے دیس میں نکلا عید پہ جانے کیسا چاند