افسانہ: کہانی گو کی کہانی

زندگی  چھوٹی چھوٹی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔۔۔کوئی کہانی کا حصہ ہے تو کوئی کہانی گو۔۔۔کوئی کہانیاں بُن رہا ہے تو کوئی کہانی کی تلاش میں ہے۔۔۔یہ افسانہ بھی ایک ایسے کہانی کار کی کہانی ہے جوکہانیاں لکھتا لکھتا خود کہانی بن چکا تھا۔

"اب میں زیادہ دیر آپ اور ان کے درمیان حائل نہیں رہوں گا پلیز استقبال کی جیے۔۔۔ احمد جواد صاحب کا جو ہماری آج کی محفل کی جان ہیں۔۔۔۔ احمد۔۔۔ جواد صاحب "

اسٹیج سیکرٹری یہ کہتے ہوئے ڈائس سے ہٹ گیا اور اسٹیج پر  مہمانانِ خصوصی کی کرسیوں پر براجمان تین افراد میں سے ایک قدرے عمر رسیدہ شخص ڈائس کی طرف بڑھ گیا ۔ اس کی کنپٹیوں پر بال سارے کے سارے سفید تھے جبکہ باقی سر کے بالوں میں سیاہی اور سفیدی باہم شیر و شکر تھے ۔

اس کے کلین شیو چہرے کی جھریاں اور آنکھوں کے قریب حلقوں میں گزرے ہوئے ماہ و سال کی کٹھنائیوں کی داستان رقم تھیں۔

ہال جو تالیوں سے گونج رہا تھا ، اس کے ڈائس پر پہنچتے ہی خاموشی میں ڈوبتا چلا گیا۔ چند گھڑیوں کی خاموشی کے بعد احمد جواد نے چند رسمی کلمات ادا کیے اور پھر کچھ توقف کے بعد یوں مخاطب ہوا :

"ایک وہ کہانی ہے جو اس کتاب میں لکھی ہوئی ہے اور ایک وہ کہانی ہے... جو اس کہانی کی کتھا ہے ...اس کتاب کے اندر لکھی کہانی تو آپ پڑھیں گے اور اپنی آراء سے مجھے آگاہ کریں گے۔۔۔ لیکن جو اس کہانی اس کہانی کے پیچھے ہے وہ شاید آپ کو کہیں پڑھنے کو نہ ملے۔ ہاں مگر یہ جان لی جیے کہ اس کتاب میں لکھی ہوئی کہانی اس کہانی کا صدقہ ہے ۔ آئیے آج آپ کو وہ کہانی سناتا ہوں جو اس کہانی کی کہانی ہے۔ یہ کہانی ہے عزم، لگن اور باطنی اطمینان کی۔

اس کہانی کے دو کردار ہیں ایک کردار مَیں ہوں اور دوسرا کردار خود کہانی ہے ۔ہم دونوں کا بچپن کا ساتھ ہے۔  عمرو عیار اور ٹارزن کی چھوٹی چھوٹی کہانیاں پڑھتے پڑھتے نجانے کب میں  جنوں پریوں کی ننھی منی کہانیاں تخلیق کرنے لگا تھا۔ میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو اکٹھا کر کے گھنٹوں کہانیاں سناتا رہتا تھا ۔ جس عمر میں بچے کھیل کے میدانوں میں ہوتے ہیں۔۔۔ میَں گھر کے کسی پرسکون کونے کھدرے میں چھپا کہانیوں کی کتابوں سے سرگوشیاں کرتا پایا جاتا تھا ۔

کہانی میری پہلی محبت تھی !

مَیں فرصت کے لمحات میں اس کے ساتھ کھیلتا تھا ۔۔۔ اسے بناتا سنوارتا ۔۔۔۔ باتیں کرتا تھا ۔ مجھے ہر طرف، ہر جگہ، ہر شخص میں ایک کہانی نظر آتی تھی ۔غرض یہ کہ دنیا بہت سہانی تھی ۔۔۔میرے چاروں اور۔۔ بس کہانی تھے !

وقت گزرتا گیا اور ہم دونوں بڑے ہو گئے . جہاں میں بیس، اکیس سال کے نوجوان میں بدل گیا تو وہاں وہ چھوٹی چھوٹی کہانیاں بھی افسانوں اور ناولوں کا روپ دھارتی گئیں۔ میری کہانیوں کے کردار حقیقی اور حقیقی زندگی کے قریب ہوتے چلے گئے۔ اب ان کہانیوں میں عشق و محبت کے رنگ بھرنے بھرتے چلے گئے۔

تب میرے والد حیات تھے۔ہر خواہش بولنے سے پہلے پوری ہو جاتی تھی ۔۔۔ ہر خواب اگلے ہی لمحے حقیقت کا روپ تھا لیتا تھا۔ سپنے حقیقت تھے اور حقیقت سپنوں جیسی تھی۔

پھر ایک دن قسمت نے مجھے اس حسین فردوس بریں سے  سے زمین پر پٹخ دیا۔ میرے والد دنیا سدھار گئے،زندگی خواب ہونے لگی اور حقیقتیں حقیقت بننے لگیں۔حقیقت اور افسانے کی راہیں جدا ہونے لگیں۔ سچائی اس قدر تلخ ہوتی گئی کہ کہانی جو میرا پہلا پیار تھی رفتہ رفتہ میری دنیا سے معدوم ہوتی گئی۔ والد   صاحب کی وفات کے بعد ہماری دنیا ہی بدل گئی۔میری پڑھائی تب مکمل ہونے کو تھی۔ ایک گزارے لائق  جاب مل گئی اور اس کے بعد۔۔۔ محنت و،مشقت اور ریاضتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔

 اس جدوجہد نے میرے کئی سال تو مجھ سے چھینے ہی مگر سب سے بڑا نقصان جو میں نے اٹھایا تھا۔۔۔ وہ کہانی سے جدائی کا تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے یوں اجنبی ہو چکے تھے کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے۔۔ شادی ہوئی۔۔۔ بچے ہوئے۔۔ لائف سٹائل بہتر سے بہتر ہوتا چلا گیا مگر ۔۔۔ مجھ سے روٹھی ہوئی کہانی نجانے کہاں کھو گئی تھی۔ مَیں گھنٹوں کاغذ قلم لیے اس کے انتظار میں بیٹھا رہتا تھا لیکن لفظ تھے کہ مجھ سے خفا ہو گئے تھے۔۔۔ کہانی تھی کہ مجھ سے جدا ہو گئی تھی۔۔ مَیں روتا ۔۔۔ تڑپتا ۔۔۔۔سسکتا ہوا ناکام و نامراد رائٹنگ ٹیبل سے اٹھ جاتا تھا۔ مَیں تخلیق کرنے کے اس خوابوں جیسے حسین احساس سے دوبارہ گزرنا چاہتا تھا جو کبھی بچپن اور نوجوانی میں میرا اوڑھنا بچھونا ہوتا لیکن مَیں بے بس تھا۔۔۔ لاچار تھا۔

عمر ڈھلنے لگی۔۔۔ مَیں ملازمت سے ریٹائر ہو گیا۔ میرے دونوں بچوں کی شادی ہوگئی  اور وہ ہنسی خوشی اپنی اپنی زندگی میں مگن ہوگئے۔ اب مجھے کہانی کی کمی مزید شدت سے ہونے لگے۔ مَیں اور زیادہ بے قرار ہونے لگا ۔اضطرابِ مسلسل جان کو آنے لگا تو ایک شام جب میں لان میں حسبِ دستور کاغذ قلم سامنے رکھے اسے صدائیں دے رہا تھا ۔۔۔ بالآخر کہانی کو مجھ پر ترس آگیا ۔

دھیرے دھیرے اس نے مجھے اپنی آغوش میں لینا شروع کر دیا۔ برسوں بعد، مَیں اس کے خواب جیسے ساتھ کے میسر آنے پر ایک نشے کی سی کیفیت میں ڈوبتا چلا گیا ۔ نجانے کتنے دن اور کتنی راتیں اسی سرشاری اور مدہوشی کے عالم میں جیتا رہا ۔۔۔ جب ہوش آیا ۔۔۔تو یہ کتاب میرے سامنے مکمل پڑی تھی ۔۔۔اور کہانی جو میری پہلی محبت تھی۔۔۔ ایک طرف کھڑی مسکرا رہی تھی۔۔۔  "

وہ خاموش ہو گیا... کچھ دیر خاموشی رہی ایک گمبھیر خاموشی۔۔۔!

 اور پھر ہال  دوبارہ تالیوں سے گونج اٹھا ۔

متعلقہ عنوانات