لاہور سائنس میلہ: کیا ہم کائنات میں اکیلے ہیں؟ پال ڈیویز کا لیکچر

کیا اس کائنات میں زندگی صرف زمین پر ہے؟ کیا کسی اور سیارے پر زندگی کے آثار ملے ہیں؟ کیا کوئی خلائی مخلوق بھی وجود رکھتی ہے؟لاہور سائنس میلے میں   مشہور امریکی طبیعات دان پال ڈیویز کی زبانی غیر ارضی حیات کی تلاش  کی سائنسی کوششوں کا احوال جانیے ۔

لاہور سائنس میلے کے پہلے دن  اریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی امریکہ کے ماہر طبیعات اور مشہور سائنسی مصنف ڈاکٹر پال ڈیویز نے  "کیا ہم کائنات میں اکیلے ہیں؟" کے عنوان پرورچوئل لیکچر دیا۔ یہ لیکچر بہت دل چسپ اور حیر ت سامانیاں لیے ہوئے تھا۔   کائنات میں زمین کے علاوہ کسی اور سیارے پر بھی زندگی کا وجود ہے ہے نہیں۔۔۔ پال ڈیویز نے اس سوال کو سادہ انداز میں سمجھانے کی کامیاب کوشش کی۔ یہاں پر  ہم ان کے نکات کو اضافے کے ساتھ آسان فہم انداز میں بیان کرہے ہیں۔

 غیر ارضی حیات کی تلاش  کی سائنسی کوششوں کا احوال جانیے اس تحریر میں

مشہور سائنس فکشن ناول نگار کارل ساگان   کا قول ہے:

            " اگر اس کائنات میں صرف ہم (انسان) ہیں اور ہمارے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے تو یہ خلاء کا بے رحمانہ ضیاع ہے"۔

            1995ء تک ہم صرف اپنے نظام شمسی میں موجود سیاروں کے بارے میں جانتے تھے۔ 1995 ء میں پہلی بار کسی دوسرے ستارے کے گرد گھومتا ہوا پہلا سیارہ دریافت کیا گیا۔ اس دریافت کے بعد یہ خیال زور پکڑنے لگا کہ اگر ہمارے نظام شمسی سے باہر بھی زمین نما سیارے موجود ہیں تو ان پر بھی زندگی موجود ہو سکتی ہے۔ شاید کہ ہم انسان اس کائنات میں اکیلے نہ ہوں اور شاید دوسرے سیاروں پر بھی ہمارے جیسی کوئی ذہین مخلوق موجود ہو۔

            تب سے لے کر آج تک ہمارے نظام شمسی سے باہر تقریباََ 5000 سے زائد"ماورائے شمسی  سیارے"(Exoplanets) دریافت ہو چکے ہیں ۔ ان میں سے کئی سیاروں کو "زندگی کے امیدوار سیارے" یا "زمین سے مشابہ سیارے" بھی قرار دیا جا چکا ہے، کیونکہ وہ ایسی کچھ شرائط کو پورا کر رہے ہیں جو کسی سیارے پر زندگی کی ابتداء اور ارتقاء کے لئے لازمی تصور کی جاتی ہیں۔

          دوسرے سیاروں پر زندگی کی شرائط

            سائنسی نقطہ نگاہ سے ہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ کسی سیارے پر زندگی کے موجود ہونے کے لئے درجنوں شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے۔ ان شرائط میں اس سیارے کا اپنے سورج سے ایسا ٹھیک ٹھیک فاصلہ پہلی شرط ہے ۔ یعنی یہ اپنے ستارے کے گرد ایسے علاقے میں گردش کر رہا ہو ، جسے فلکیاتی زبان میں "قابل رہائش علاقہ " (Habitable zone) کہا جاتا ہے۔  تکنیکی زبان میں ایسے علاقوں کو "گولڈی لاکس زون " بھی کہا جاتا ہے۔

            دوسری اہم ترین شرط یہ ہے کہ اس سیارے پر پانی مائع حالت میں موجود رہ سکے۔ یعنی اگر اس سیارے پر مائع حالت میں پانی موجود ہوا تو وہاں زندگی کے وجود پانے اور ارتقاء پذیر ہونے کے امکانات روشن ہوں گے۔ اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس سیارے کا درجہ حرارت ایسا ہو جس پر پانی اپنی مائع حالت برقرار رکھ سکے۔

            تیسری اہم شرط یہ ہے کہ اس سیارے کی کمیت ، ہماری زمین کی کمیت سے مماثلت رکھتی ہو۔ کیونکہ اگر وہ سیارہ گیسی حالت میں ہو گا تو وہاں زندگی کی موجودگی کا امکان بہت کم ہو گا۔

            بہر کیف، ماہرین کی جان توڑ کوششوں کے باوجود اب تک زمین جیسے کسی آباد سیارے یا کسی ذہین غیر ارضی مخلوق کی کوئی اطلاع نہیں مل سکی ہے۔

          خلائی مخلوق کی تلاش کا سائنسی منصوبہ  " سیٹی پراجیکٹ"

            سیٹی (SETI) دراصل " سرچ فار ایکسٹرا ٹیرسٹریل انٹیلی جنس" یعنی "ماروائے ارض ذہانت کی تلاش" کا مخفف ہے۔ سیٹی انسٹی ٹیوٹ کی داغ بیل اس وقت پڑی جب 1960 کے عشرے میں ریڈیو فلکیات کے ماہر  فرینک ڈریک نے کارل ساگان کے ساتھ مل کر غیر ارضی حیات کی تلاش کا منصوبہ بنایا۔ اس میں ان تمام پہلوئوں کا پر غور کیا گیا جن کے ذریعے ہماری کہکشاں میں موجود قابلِ دریافت تہذیبوں کی تعداد کی پیش گوئی کی جا سکے۔ چونکہ کائنات میں کھرب ہا کھرب ستارے ہیں اور ان میں سے کئی ستارے ہمارے سورج کی طرح چند سیاروں کے خاندان کے بھی حامل ہیں۔ اب اگر کائنات میں ذہین غیر ارضی زندگی کے موجود ہونے کا امکان نہایت خفیف (تقریباََ صفر) بھی ہو، تب بھی کائنات میں موجود کھربوں ستاروں کو مد نظر رکھتے ہوئے، اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ شاید ہم اکیلے نہ ہوں اور کائنات کے کسی کونے میں ہمارے جیسی زندگی موجود ہو۔

            سیٹی منصوبے کے تحت ایک بہت بڑی ریڈیائی دور بین تیار کی گئی اور اس کے ذریعے طاقت ور ریڈیائی سگنلز خلا میں بھیجے گئے کہ شاید وہ سگنلز کسی خلائی مخلوق تک پہنچیں اور وہ ان کا جواب دے۔نیز یہ ریڈیو دوربین 25000 نوری سال دور سے آنے والے کمزور ریڈیائی سگنلز کو محسوس کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔  تاہم آج تک نہ ہی اسے باہر کی دنیا سے کوئی ایسا سگنل موصول ہوا ہے اور نہ ہی  کسی بھیجے گئے سگنل کا جواب موصول ہوا ہے۔

          ساگان ڈریک مساوات کا مختصر تعارف

            کارل ساگان اور فرینک ڈریک نے کائنات میں زندگی کی موجودگی کے امکانات کا جائزہ لینے کے لئے  ایک فارمولہ تیار کیا جسے "ساگان ڈریک مساوات" کہا جاتا ہے۔  اسے عمومی طور پر "ڈریک مساوات" (Drake Equation)بھی کہا جاتا ہے۔ غالباََ یہ خلائی مخلوق کے امکانات سے بحث کرنے والی اب تک کی پہلی اور آخری مساوات ہے جسے کم و بیش تمام ماہرین نے سب سے معقول اور محتاط قرار دیا ہے۔

            اس مساوات میں سب سے پہلے کائنات میں موجود ستاروں کی تعداد اور ہر سال نئے بننے والے ستاروں کی  تعداد کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ ہر سال نئے ستاروں کی تعداد، کل ستاروں کی تعداد کا دو فیصد ہو سکتی ہے۔

            اس کے بعد ، ان کل ستاروں میں سے ایسے ستاروں کی تعداد کا اندازہ لگایا گیا ہے جن کے گرد کچھ سیارے گردش کررہے ہوں۔ یعنی ایسے دوسرے سورج کہ جن کے ساتھ "نظام شمسی" بھی ہوں۔ماہرین کا اندازہ ہے کہ ہر 2000 ستاروں میں سے لگ بھگ 7 فیصد ستارے ایسے ملے ہیں جو سیاروی نظام کے حامل بھی ہیں۔

            اب اگلا مرحلہ یہ معلوم کرنے کا ہے کہ کسی نظام شمسی میں کتنے سیاروں پر زندگی کے لئے ساز گاز ماحول موجود ہو سکتا ہے۔ تاہم اس میں سیاروں کے ساتھ ساتھ سیارچوں (یعنی سیاروں کے چاند) کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح ہمارے نظام شمسی میں مشتری کے چاند یوروپا اور زحل کے چاند انسیلاڈس پر زندگی کی موجودگی کا امکان پایا جاتا ہے۔

            اس کے بعد مساوات میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایسے کتنے سیاروں (یا سیارچوں) پر زندگی ظہور پذیر ہوئی ہو گی۔ اور اگر کسی سیارے پر زندگی کا ظہور ممکن ہوا بھی ہے تو اس بات کا کتنا امکان ہے کہ زندگی کی وہ شکل کسی ارتقائی عمل کے نتیجے میں ذہانت بھری زندگی کے مرحلے تک بھی پہنچی ہو گی یا نہیں۔ 

            مساوات میں اگلا مرحلہ یہ دیکھنے کا ہے کہ کیا ایسی کسی ذہین مخلوق نے کوئی ایسے ریڈیائی آلات بھی بنائے ہوں گے کہ  جن کے ذریعے اس تک رسائی یا اس کی موجودگی کا ثبوت حاصل کیا جا سکے۔یا وہ اس قابل ہو کہ ہمارے بھیجے گئے سگنلز کو وصول کر سکے۔

            "ڈریک مساوات" کے تمام اعدادو شمار کا جائزہ لینے کے بعد ، ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارے "کائناتی پڑوس" میں کم از کم ایسی دس ماورائے شمسی تہذیبیں موجود ہو سکتی ہیں کہ جن سے ہم رابطہ کر سکتے ہیں یا وہ ہم سے رابطہ کر سکیں گی۔  ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم مسلسل ایک لاکھ سال تک تلاش جاری رکھیں تو اس پورے عرصے میں شاید 127 ماورائے شمس تہذیبیں دریافت کر سکیں۔ جو کم از کم ہمارے جتنی ترقی یافتہ ہوں گی۔

            فرینک ڈریک کا کہنا ہے کہ " مجھے آج  بھی پورا یقین ہے کہ ہماری کہکشاں میں ذہین حیات موجود ہے۔ مسئلہ صرف اس کی تلاش کا ہے"۔   

          حرف آخر

            زمین جیسے سیارے، جو زندگی کے لئے حد درجہ سازگار ہوں، اس قدر عام نہیں جیسے  کہ ڈریک کی مساوات میں ظاہر کئے گئے ہیں۔ اگرچہ ہمارے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ زمین اس کائنات میں منفرد ہے، لیکن اس بات کی مکمل شہادت موجود ہے کہ زمین ایک نایاب سیارہ ہے۔ کائنات میں شاید ذہین حیات کہیں موجود ہو، لیکن وہ اس قدر کم یاب ہو گی کہ شاید ہم اس کا سراغ کبھی نہ لگا سکیں۔ 

           

متعلقہ عنوانات