سلام ٹیچر ڈے پر خصوصی افسانہ: "راہ مشکل تو ہے" (حصہ اول)
عالمی یومِ اساتذہ کے موقع پر خصوصی افسانہ: "راہ مشکل تو ہے " (حصہ اول)
صبح کی تازہ ہوا اس کے بالوں سے اٹھکیلیاں کر رہی تھی ۔ فضا میں موجود خنکی اور ہوا میں گھلی مستی نے اس کے مزاج کو تروتازہ کر دیا تھا ۔نجانے کس ترنگ میں اس نے موٹر سائیکل کی ریس رفتہ رفتہ بڑھانا شروع کر دی جس کے نتیجے میں تیز ہوا کی اس کے بالوں سے چھیڑ چھاڑ بھی بڑھنے لگی جس سے اسے عجب سا تلذذ محسوس ہونے لگا تھا ۔ وہ اسی سرور میں ڈوبا سر سبز لہلہاتے ہوئے کھیتوں کے بیچوں بیچ بنی اس نو تعمیر شدہ خوبصورت سی پتلی سڑک پر اپنی منزل کی طرف اڑا جا رہا تھا جب ایک تیز اور بے ہنگم سی "کڑڑڑڑ" کی آواز نے اسے بریک پر پاؤں کا دباؤ بڑھانے پر مجبور کر دیا اور موٹر سائیکل ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی ۔جمیل نے موٹر سائیکل کو سٹینڈ پر لگایا اور اس کا جائزہ لینے لگا۔ آواز موٹر سائیکل کی چین سے آئی تھی ۔ جمیل نے پلاسٹک سے بنے سستے چین کے کور میں موجود چھید میں انگلی ڈال کر چین کو چیک کیا ۔ اس کی توقع کے عین مطابق چین یا تو ایکسل سے اتر گئی تھی یا ٹوٹ گئی تھی ۔
جمیل پر تھوڑی دیر پہلے طاری موسم کا نشہ کافور ہو گیا تھا ۔ وہ جی ہی جی میں اپنی پرانی بوسیدہ موٹر سائیکل کو کوسنے لگا جو ان دنوں اس کے لیے درد سر بنی ہوئی تھی ۔ یہ ہفتے میں تیسری بار ہو رہا تھا کہ موٹر سائیکل کی چین انتہائی غلط مقام پر اتری تھی ۔ وہ کئی بار اس سکول میں صرف موٹر سائیکل کے مسائل کی وجہ سے لیٹ ہو چکا تھا جہاں وہ تدریس کے فرائض فرائض سر انجام دیتا تھا ۔ اب تو پرنسپل صاحب اسے تاخیر سے آتا ہوا دیکھ کر یہ نہیں پوچھتے تھے کہ دیر کیوں ہوئی بلکہ اب ان کا استفسار یہ ہوتا تھا آج موٹر سائیکل کو کیا مسئلہ تھا اور وہ شرمندہ سا اپنی دیر سے پہنچنے کی وجہ بیان کرنے لگتا جو حقیقتاً موٹر سائیکل سے متعلقہ ہوا کرتی تھی ۔
وہ گزشتہ دس سالوں سے ایک این جی او کے تحت کام کر رہے اس نجی ادارے میں پڑھا رہا تھا جو ایک دیہاتی علاقے میں قائم کیا گیا تھا ۔ کئی سال تک سرکاری نوکری کے لیے جدوجہد کرنے کے بعد لاچار جمیل نے ایک پرائیویٹ ادارے میں پڑھانا شروع کر دیا تھا ۔ اس نوکری سے تین افراد پر مشتمل اس کی فیملی کا مناسب گزر بسر ہونے لگا تھا لیکن اگر کوئی خوشی غمی کا موقع آ جاتا یا کوئی ناگہانی نقصان ہو جاتا جس پہ اخراجات کا احتمال ہوتا تو اس کے مہینے کا بجٹ بری ہل کے رہ جاتا تھا ۔ وہ پچھلے کئی ماہ سے موٹر سائیکل بدلنے کے لیے کچھ پیسے پست انداز کرنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا لیکن جونہی کچھ رقم اکٹھی ہوتی کوئی نہ کوئی ایسی ضرورت نکل آتی کہ ساری رقم خرچ ہو جاتی تھی ۔
بعض اوقات وہ اپنے اس سیٹ اپ سے اس قدر تنگ آ جاتا کہ اس کا جی چاہتا تھا کہ یہ نوکری چھوڑ کر کوئی اور کام دھندا کر لے کیونکہ اس کے روزمرّہ کے اخراجات تو پورے ہو رہے تھے لیکن کچھ بھی بچت نہیں ہو رہی تھی ۔
جمیل نے اپنے خیالات میں مگن موٹر سائیکل کو زمین پر چلتے ہوئے ایک دو بار گھسیٹ کر آگے پیچھے چلانے کی کوشش کی کیونکہ کئی دفعہ ایسا ہوا تھا کہ چین اتر جانے پر گاڑی کو دھکا لگا کر آگے پیچھے چلانے سے اس کی اتری ہوئی چین ایکسل پر دوبارہ سیٹ ہو جاتی تھی ۔۔۔ لیکن آج ایسا کرنے سے الٹ نتیجہ برآمد ہوا ۔ موٹر سائیکل کا پچھلا پہیہ جو پہلے کچھ حرکت کر رہا تھا اب بالکل جام ہوگیا ۔ اب دھکا لگا کر بھی موٹر سائیکل کو حرکت دینا ممکن نہیں رہا تھا ۔ اتنی سی زور آزمائی سے ہی اس کا جسم پسینےمیں شرابور ہو گیا تھا ۔ جمیل نے موٹر سائیکل کو سٹینڈ پر لگایا اور ایک طرف بیٹھ کر اپنی بے ربط سانسوں اور منتشر خیالات کو ترتیب دینے لگا۔ جمیل کو نجانے کیوں اس کے پرانے دوست مکرم کی دی ہوئی تجویز شدت سے یاد آ رہی تھی ۔
مکرم اس کا لنگوٹیا یار تھا ۔ اپنی پڑھائی سے غیر دلچسپی کی وجہ سے مکرم میٹرک سے آگے نہیں پڑھ سکا تھا۔ اس کی تعلیم سے غیر رغبتی کو دیکھتے ہوئے مکرم کے والد نے اسے اپنے کپڑے کی دکان پر بٹھا لیا اور آج اس کا اچھا خاصہ اپنا کاروبار تھا ۔ جمیل کی اکثر مکرم سے بیٹھک رہتی تھی ۔ حالیہ حالات کو دیکھتے ہوئے مکرم نے جمیل کو بھی کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر لینے کا مشورہ دیا تھا اور ابتدائی طور پر مالی معاونت کی بھی پیشکش کی تھی ۔ سڑک کنارے خراب موٹر سائیکل کو صلواتیں سناتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کہ اسے مکرم کی پیشکش پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے ۔ اس معمولی سی ٹیچنگ کی نوکری میں کیا رکھا ہے جس کو دس سال دینے کے بعد وہ ایک نئی موٹر سائیکل خریدنے کے قابل بھی نہیں ہو سکا ۔
وہ اسی ادھیڑ بن میں بیٹھا تھا کہ دو موٹر سائیکل سواروں نے اس کے قریب آ کر اپنی موٹر سائیکلوں کو بریک لگائی ۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔
عالمی یوم اساتذہ پر خصوصی افسانہ دوسرا حصہ پڑھنے کے لیے کلک کیجیے