اس دہر میں اب کس پہ بھروسہ کیجے
اس دہر میں اب کس پہ بھروسہ کیجے کس شخص کا مشکل میں سہارا کیجے ہے کس کو غرض کام کسی کے آئے کس آس پر آواز کسی کو دیجے
اس دہر میں اب کس پہ بھروسہ کیجے کس شخص کا مشکل میں سہارا کیجے ہے کس کو غرض کام کسی کے آئے کس آس پر آواز کسی کو دیجے
کیا تم نے مرا حال زبوں دیکھا ہے ہر حسرت و امید کا خوں دیکھا ہے اٹھ بیٹھا ہوں سو بار میں سوتے سوتے یہ وحشت و انداز جنوں دیکھا ہے
اک وہ ہیں کہ انکار کئے جاتے ہیں اک ہم ہیں کہ اصرار کئے جاتے ہیں مانے ہیں نہ مانیں گے گزارش اپنی بے فائدہ تکرار کئے جاتے ہیں
بیکس کی کوئی کس لیے امداد کرے پامال ہیں جو کون انہیں یاد کرے فرصت کسے دہر میں دل جوئی کی مظلوم کوئی کرتا ہے فریاد کرے
بے کیف ہیں دن رات کہوں تو کس سے یہ صورت حالات کہوں تو کس سے دنیا میں کوئی مونس و غم خوار نہیں میں دل کی اگر بات کہوں تو کس سے
الزام لگایا ہے تو ثابت بھی کرو سچی ہے اگر بات تو بے خوف کہو لیکن تمہیں غلطی کا اگر ہے احساس پھر اس کی تلافی میں بھی تاخیر نہ ہو
کیوں ان کو ستانے میں مزا آتا ہے دل میرا دکھانے میں مزا آتا ہے میری تو کوئی بات وہ سنتے ہی نہیں اپنی ہی سنانے میں مزا آتا ہے
مت کہیو زباں ہے یہ مسلمانوں کی اردو تو ہے دنیا کے سب انسانوں کی بازار میں دفتر میں گلی کوچوں میں محبوب زباں ہے یہ سخن دانوں کی
ہونٹوں سے لگاتا ہے کوئی جام کہاں اب وجد میں آتے ہیں در و بام کہاں دن رات گلو گیر ہو جب فکر معاش پھر عشق کا لیتا کوئی نام کہاں
اک جہل کے سیلاب میں جو بہتے ہیں اک عالم موہوم میں جو رہتے ہیں کم ظرف و کم اندیش ہیں کج فہم ہیں جو بے وجہ وہ اردو کو برا کہتے ہیں