یہ سنگ نشاں ہے منزل وحدت کا
یہ سنگ نشاں ہے منزل وحدت کا پیدا ہوا پھر کوئی نہ اس صورت کا انسان جسے کہتے ہیں دنیا والے قد آدم ہے آئینہ قدرت کا
یہ سنگ نشاں ہے منزل وحدت کا پیدا ہوا پھر کوئی نہ اس صورت کا انسان جسے کہتے ہیں دنیا والے قد آدم ہے آئینہ قدرت کا
ہر قطرے میں بحر معرفت مضمر ہے ہر اک ذرے میں کچھ نہ کچھ جوہر ہے ہو چشم بصیرت تو ہر چیز اچھی گر آنکھ نہ ہو تو لعل بھی پتھر ہے
مر مر کے لحد میں میں نے جا پائی ہے یاں تک مجھے تیری ہی کشش لائی ہے آ اے مرے منہ چھپانے والے آ جا خلوت ہے شب تار ہے تنہائی ہے
گرمی میں غم لبادہ نازیبا ہے مستی میں خیال بادہ نازیبا ہے کافی ہے ضرورت کے مطابق دنیا دنیا حد سے زیادہ نازیبا ہے
دنیا کے ہر ایک ذرے سے گھبراتا ہوں غم سامنے آتا ہے جدھر جاتا ہوں رہتے ہوئے اس جہاں میں مدت گزری پھر بھی اپنے کو اجنبی پاتا ہوں
ہر محفل سے بہ حال خستہ نکلا ہر بزم طرب سے دل شکستہ نکلا منزل ہی نہیں یہاں مسافر کے لیے سمجھا تھا جسے مقام رستہ نکلا
سرمایۂ علم و فضل کھویا میں نے سب دفتر پارینہ ڈبویا میں نے بس ہے تری خاک پا تیمم کے لیے اے دوست وضو سے ہاتھ دھویا میں نے
اس جسم کی کیچلی میں اک ناگ بھی ہے آواز شکست دل میں اک راگ بھی ہے بے کار نہیں بنا ہے اک تنکا بھی خاموش دیا سلائی میں آگ بھی ہے
جو کچھ مصیبتیں ہیں تجھ پر کم ہیں خوشیاں دنیا کی تیرے حق میں سم ہیں غم سے کیوں دور بھاگتا ہے امجد معلوم نہیں تجھے کہ غم میں ہم ہیں
افسوس کہ جس دن سے ہم آزاد ہوئے اپنی ہی بری سوچ سے برباد ہوئے جھگڑے کبھی مذہب کبھی بھاشاؤں پر کیا کیا ستم اپنے لیے ایجاد ہوئے