مری گلی میں یہ آہٹ تھی کس کے قدموں کی
مری گلی میں یہ آہٹ تھی کس کے قدموں کی یہ کون چاند سے دامن بچا کے گزرا ہے مرے اداس دریچے مجھے بتاتے ہیں بڑے ہی درد سے کوئی بلا کے گزرا ہے
مری گلی میں یہ آہٹ تھی کس کے قدموں کی یہ کون چاند سے دامن بچا کے گزرا ہے مرے اداس دریچے مجھے بتاتے ہیں بڑے ہی درد سے کوئی بلا کے گزرا ہے
گلوں کا، نغموں کا، خوابوں کا چاندنی کا سلام کھلی فضاؤں کا، خوشبو کا روشنی کا سلام گلی گلی کا یہ جوگی، نگر نگر کا فقیر تمہارے شہر میں لایا ہے زندگی کا سلام
اگر یوں ہی رہے گی حیرت عشق اگر یہ دیدۂ نم نم رہے گا برنگ شبنم آ کر قطرۂ اشک ہماری ہر مژہ پر جم رہے گا
بقول سوز جرأتؔ کیا کہیں ہم فکر کو اپنی ہمارا شعر ہے گا بادۂ وحدت کا پیمانہ ولے جیسا کوئی ہو اس کو ویسا نشہ کرتا ہے زنانے کو زنانا اور مردانے کو مردانہ
گرا نہ آنکھ سے آنسو فریب قسمت پر سکون جس سے ہو وہ اضطراب پیدا کر مژہ میں روک لے آنسو کہ دل ہو آئینہ ستارے توڑ دے اور آفتاب پیدا کر
قلب صحرا میں چھٹپٹے کے وقت دل میں غلطاں ہے ایک طرفہ امنگ مجھ سے کہتا ہے کیا خدا جانے؟ دھان کے کھیت پر شفق کا رنگ
آہٹوں کے سراب میں گم ہیں تیری باہوں کے خواب میں گم ہیں اپنے ہوش و حواس کیا جانیں کس جہان خراب میں گم ہیں
شمع روشن ہے سر بزم نگاہوں میں مگر کس کو معلوم دبے پاؤں اندھیرا آیا سو گئی مسند شاہی پہ کہیں آزادی کون سی رات گئی کس کا سویرا آیا
دل سے مجبور آپ سے بیزار اس دوراہے پہ آ گئے ہو گے آؤ بیٹھو کہ بے بسی معلوم دل سے پھر مات کھا گئے ہو گے
نیند اڑ جائے گی راتوں کو شکایت ہوگی میں نہ سمجھا تھا تمہیں اتنی محبت ہوگی نظریں ڈھونڈیں گی ہر اک راہ پہ قدموں کے نشاں بال بکھرائے ہوئے منزلوں وحشت ہوگی یہی آشفتہ مزاجی ہے تو اے جان وفا آج بستی میں ہے کل شہر میں شہرت ہوگی