دل ویراں کو اب کی بار شاید
دل ویراں کو اب کی بار شاید غموں نے اپنا مسکن کر لیا ہے ترے وحشی نے اب تو اپنے حق میں زمانہ بھر کو دشمن کر لیا ہے غزل ظالم سے ہم بھی ہار بیٹھے اسی کو اپنا اب فن کر لیا ہے
دل ویراں کو اب کی بار شاید غموں نے اپنا مسکن کر لیا ہے ترے وحشی نے اب تو اپنے حق میں زمانہ بھر کو دشمن کر لیا ہے غزل ظالم سے ہم بھی ہار بیٹھے اسی کو اپنا اب فن کر لیا ہے
مجھ کو ان ارضی خداؤں نے اگر لوٹا ہے کیا یہ سچ ہے کہ مشیت بھی رہی دوش بدوش دب کے رہ جاتی ہے ہر آہ و بکا عظمت میں کون جانے کہ خدا کس لیے بیٹھا ہے خموش
پا لیا پھر کسی امید نے فردا کا سراغ تشنگی ڈھونڈھ رہی ہے مے و مینا و ایاغ ذہن میں پھر سے ابھرنے لگے ماضی کے نقوش دل میں ہونے لگے روشن تری یادوں کے چراغ پھر سے اک موج طرب موجۂ رنگ اٹھی ہے پھر سے ملنے کو ہے شاید غم ہستی کا سراغ
ہر طنز کیا جائے ہر اک طعنہ دیا جائے کچھ بھی ہو پر اب حد ادب میں نہ رہا جائے تاریخ نے قوموں کو دیا ہے یہی پیغام حق مانگنا توہین ہے حق چھین لیا جائے
پاس رہ کر جدائی کی تجھ سے دور ہو کر تجھے تلاش کیا میں نے تیرا نشان گم کر کے اپنے اندر تجھے تلاش کیا
میں نے ہر بار تجھ سے ملتے وقت تجھ سے ملنے کی آرزو کی ہے تیرے جانے کے بعد بھی میں نے تیری خوشبو سے گفتگو کی ہے
سر میں تکمیل کا تھا اک سودا ذات میں اپنی تھا ادھورا میں کیا کہوں تم سے کتنا نادم ہوں تم سے مل کر ہوا نہ پورا میں
تھی جو وہ اک تمثیل ماضی آخری منظر اس کا یہ تھا پہلے اک سایہ سا نکل کے گھر سے باہر آتا ہے اس کے بعد کئی سائے سے اس کو رخصت کرتے ہیں پھر دیواریں ڈھے جاتی ہیں دروازہ گر جاتا ہے
کون سود و زیاں کی دنیا میں درد غربت کا ساتھ دیتا ہے جب مقابل ہوں عشق اور دولت حسن دولت کا ساتھ دیتا ہے
عشق سمجھے تھے جس کو وہ شاید تھا بس اک نارسائی کا رشتہ میرے اور اس کے درمیاں نکلا عمر بھر کی جدائی کا رشتہ