افسانہ:" ہاٹ لائن " بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

گھر کی ہمسائیگی میں واقع مسجد میں اذان کی آواز نے بہزاد کو جگا دیا۔ وہ حیران تھا کہ رات اتنی جلدی ختم ہو گئی۔۔۔ اپنی دانست میں ابھی وہ گہری نیند کی وادیوں میں پوری طرح اترا بھی نہ ہوگا ، جب لاؤڈ اسپیکر کی تیز آواز نے اسے جھنجھوڑ کر بیدار کردیا تھا۔

اس نے تپائی پر رکھے موبائل فون کی اسکرین آن کرکے وقت دیکھا ۔ ابھی تو دس بجے تھے۔

"دس بجے اذان ؟"

اس نے ابھی یہ سوچا ہی تھا کہ مسجد کا سپیکر انگڑائی لے کر دوبارہ بیدار ہو گیا ۔

"حضرات گرامی! ملک میں پھیلی وباء کے پیش نظر آپ سے گزارش ہے کہ اپنے گھر میں اذان کی صدا بلند کریں۔ یہ عمل مسنون ہے۔ اللہ تعالٰی ہم سب کی حفاظت فرمائے اور اس وباء سے نجات عطا فرمائے۔ آمین "

امام مسجد صاحب کے مختصر سے اعلان کے بعد بہزاد کو لاؤڈ اسپیکر کے بغیر اذان کی صدائیں گھروں سے بلند ہوتی ہوئی سنائی دینے لگیں۔ وہ کمرے سے باہر آ گیا۔ مین ہال سے ہوتا ہوا وہ جب لان میں پہنچا تو اسے حاشر کے گھر کی چھت سے حاشر کے بزرگ والد صاحب کی ضعیف آواز میں اذان سنائی دی ۔

"اللہ اکبر... اللہ اکبر "

رات کا وقت۔۔۔  اور رقت میں ڈوبی وہ لرزتی  ہوئی صدا ۔۔۔بہزاد کی سماعتوں سے ہوتی ہوئی دل تک پہنچ رہی تھی۔ اسے پتہ ہی نہ چلا کہ کب آنسوؤں کی ایک بے قرار موج پلکوں سے فرار ہو کر اس کے چہرے پر بکھر گئی۔ اذان ختم ہونے پر وہ جیسے اچانک ہوش میں آگیا ہو۔ وہ اپنے ارد گرد ہر چیز کو یوں دیکھنے لگا جیسے سب اس کے لیے نامانوس ہوں۔ اس نے اپنے گال کو چھو کر دیکھا۔۔۔ یہ آنسو۔۔۔ یہ آنکھوں سے بہنے والا پانی بھی اس کے لئے بالکل اجنبی تھا ۔

"اوہ! میرے خدا ، میں صرف اپنی ارسلہ کو ہی نہیں... میں

میں۔۔ تو تجھے بھی تو بھلا بیٹھا تھا۔۔۔ مجھ سے بڑا زیاں کار کون ہوگا"

اس نے جی ہی جی میں سوچا اور دیوانہ وار لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا واپس اپنے کمرے میں آگیا۔ چند ثانیے بعد وہ باوضو, جائے نماز پر کھڑا تھا۔ گردن خم کیے،  نظریں جھکائے ہوئے وہ اپنے رب کے حضور سراپا ندامت بنا کھڑا ہوا تھا۔اس کے کندھے یوں جھکے ہوئے تھے جیسے منوں بوجھ اٹھائے ہوئے ہو۔

نم آنکھوں کے ساتھ جب وہ رکوع و سجود کے مراحل طے کرتا ہوا دعا کی منزل تک پہنچا تو اسے یوں لگا جیسے اس کے مضمحل، چٹختے ہوئے اعصاب یکایک پرسکون ہو گئے ہوں۔

"میرے مالک! تیرے سوا کس سے مانگوں۔۔۔ کون دے سکتا ہے۔۔۔ مجھے میری ارسلہ لوٹا دے۔۔۔ میرے مولا!  تو ہی تو ہے دلوں میں محبت کا بیج بو کر اسے پروان چڑھانے والا ۔۔۔اب اس پودے کو مرجھانے سے بچا میرے رب"

 وہ نجانے کتنی دیر آہوں ، سسکیوں اور آنسوؤں میں لپٹی دعا رب کے حضور پیش کرتا رہا ۔ نماز سے فارغ ہوکر کافی دیر وہیں جائے نماز پر بیٹھا وہ  اس کی کیفیت کو اپنی روح میں جذب کرتا رہا۔ا اچانک ایک ڈھارس تھی ۔۔۔ جو اسے مل گئی تھی۔۔۔ ایک سرشاری کا عالم تھا جو اس کے چار سو  بکھر گیا تھا ۔۔۔۔ جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم۔۔۔ جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے ۔۔۔

کبھی کبھی ہم قدرت کی بے مول نعمتوں کے اس قدر ہلکا لیتے ہیں کہ ان کے ہونے کا احساس کہیں کھو سا جاتا ہے۔

 پھر جب اچانک ان نعمتوں میں سے کسی سے محروم ہوتے ہیں یا محروم ہونے کا ہمیں احتمال ہوتا ہے تو یکایک بظاہر عام سی چیز ہمارے لئے بہت خاص ہو جاتی ہے۔ پھر ہم رو رو کر دعائیں مانگتے ہیں۔۔۔ التجائیں کرتے ہیں کہ صرف ایک بار بس ایک بار ہمیں وہ چیز لوٹا دی جائے ۔ ارسلہ بھی بہزاد کے لئے ایسا ہی ایک انمول تحفہ تھی۔۔۔ جسے شادی کے چند ماہ بعد ہی سر اٹھانے والے لامتناہی معاشی فکروں میں گھر جانے کے بعد وہ یوں فراموش کر چکا تھا جیسے اس کا وجود ہی نہ ہو

اور پھر ۔۔۔

ایک دن ارسلہ کو کرونا کا شکار ہوگئی۔۔۔ بہزاد کو جیسے کسی نے گہری نیند سے بیدار کر دیا ہو۔ وہ ارسلہ جو اس کے اس کی ترجیحات میں شاید آخر میں آتی تھی اب سرفہرست تھی ۔۔۔ بہزاد نے آفس سے دو ہفتوں کی رخصت لے لی تھی اور دن رات اب ارسلہ کی دلجوئی میں لگا رہتا تھا ۔ آج دسواں دن  لیکن مرض تھا کہ جانے کا نام نہیں لے رہا تھا ارسلہ کا علاج گھر پر ہی ہو رہا تھا ۔

جب ہر دوا بےاثرہوتی ہوئی محسوس ہوئی تو بے بسی میں اچانک بہزاد نے دعا کا دامن تھام لیا تھا۔ وہ دوبارہ صبح سے بخار میں تپ رہی تھی۔۔۔ سانس لینے میں بہت دشواری کا سامنا تھا۔۔۔ بہزاد  پچھلی دو راتوں کا جاگا ہوا تھا اس لیے دزا  سستانے کے لیے لیٹا تھا کہ اس کی آنکھ لگ گئی۔۔۔اور ابھی وہ سویا ہی تھا ازان کی آواز سے جاگ گیا تھا۔

"آپ سوئے نہیں ؟" اسے اپنے عقب سے ایک نحیف سی آواز سنائی دی۔۔۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔۔۔وہ اپنے قدموں پر دروازے کا سہارا لئے کھڑی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔

دعائیں اتنی جلدی بھی قبول ہوتی ہیں۔۔۔ یہ اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا

متعلقہ عنوانات