ہمنگ وے کی سب سے چھوٹی کہانی سسپنس ہے یا ایموشنل؟

ارنسٹ ہیمنگ وے امریکی ادب کا ایک بہت بڑا نام ہے۔ وہ ایک اعلیٰ پائے کے ناول نگار افسانہ نویس اور صحافی تھے۔ 1954 میں انہیں اادبی خدمات کے صلے میں نوبل انعام برائے ادب سے بھی نوازا گیا۔ ان کا لکھا ہوا ناول "دی اولڈ مین اینڈ سی" ہمارے ہاں کئی یونیورسٹی کے انگریزی کے نصاب کا حصہ ہے۔1974ء میں پیٹر ملر نامی ایک مصنف نے مختصر کہانی نویسی کے حوالے سے کتاب لکھی۔ اس کتاب میں پیٹر نے ہیمنگ وئے سے منسوب ایک واقعہ تحریر کیا جو اس کے بقول اس نے ایک اخبار کے مالک سے سن رکھا تھا۔واقعہ کچھ یوں ہے :

 ایک دفعہ ہیمنگ وے اپنے ایک دوست کے ساتھ ایک ریستوران میں کھانا کھا رہے تھے۔ کھانے کے ساتھ ساتھ گفتگو بھی چل رہی تھی ۔ بات چیت کے دوران ہیمنگ وے اور ان کے دوست میں ایک بات پر ٹھن گئی۔ ہیمنگ وے  کو ان کے دوست نے چیلنج کیا کہ اگر وہ   چھے (6) لفظوں میں ایک کہانی لکھ کر دکھا دے تو وہ اسے دس ڈالر دے گا۔ بصورت دیگر ہیمنگ وے کو یہ رقم ادا کرنا ہوگی۔ہیمنگ وے  جیسے جانے مانے کہانی نویس کے لیے یہ شرط پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو منوانے کے حوالے سے بھی بڑی اہمیت کی حامل تھی۔ ہیمنگ وے نے پنسل لی اور ایک سِلوَٹ زدہ نیپکن پر ایک مختصر سی تحریر لکھ کر اپنے دوست کی طرف بڑھا دی، تحریر یہ تھی :

"For sale: baby shoes, never worn."

یعنی "برائے فروخت : غیر استعمال شدہ ، بےبی شوز "کہتے ہیں کہ یہ تحریر پڑھ کر ہیمنگ وے کے دوست نے اپنے شکست تسلیم کرلی اور انہیں دس ڈالر ادا کر دیے۔اس واقعہ کی صداقت پر بعد میں بہت زیادہ تنقید بھی ہوئی اور بہت سے لوگوں نے اسے رد بھی کیا لیکن یہ تحریر اپنی جگہ آج بھی مختصر ترین کہانی کی ایک عمدہ مثال کے طور پر بیان کی جاتی ہے ۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ مذکورہ تحریر میں کیا ایسا ہے کہ اسے ہیمنگ وے جیسے بڑے نام کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے اور فلیش فکشن کے نمونے کے طور پر سب سے زیادہ اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ تحریر بظاہر ایک اشتہار ہے جس میں ایک بچے کے جوتوں کا جوڑا فروخت کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس بےبی شوز کے بارے میں بیچنے والے کا دعویٰ ہے کہ یہ غیر استعمال شدہ ہیں یعنی انہیں کبھی کسی نے پہنا نہیں۔ اس وضاحت سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بےبی شوز دراصل ری سیل کیے جا رہے ہیں یعنی انہیں کسی بچے کے پہننے کے لئے خریدا گیا تھا لیکن بچے نے انہیں پہنا نہیں۔ یہی وہ اشارہ ہے جو اس کہانی کو ایک گہرا مفہوم عطا کرتا ہے۔ Never worn یعنی کبھی نہ پہنے گئے یا غیر استعمال شدہ .... یہ وہ الفاظ ہیں جو ایک کربناک ٹریجیڈی کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ ہم جب غور کرتے ہیں تو ہم پر یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ یہ بےبی شوز والدین نے اپنے ہونے والے بچے کے لیے خریدے تھے جس کا انتقال ہونے پر وہ انہیں دوبارہ بیچ رہے ہیں تاکہ یہ کسی اور بچے کے کام آ جائیں۔

ہر صاحب اولاد انسان ان خوابوں اور سپنوں سے آگاہ ہوگا جو ماں باپ بچے کی پیدائش سے قبل اس کے بارے میں دیکھتے ہیں ۔۔۔ خاص طور پر مائیں بڑی محبت اور بڑے چاؤں کے ساتھ آنے والے مہمان کے لوازمات کا پیشگی اہتمام کرتی ہیں۔ کپڑے، جوتے، موزے، ٹوپیاں اور نہ جانے کیا کچھ اپنے آنگن میں اترنے والے چاند کے لئے وہ خریدتی ہیں لیکن اگر وہ مہمان آتے ہیں واپسی کے سفر پر روانہ ہو جائے تو انکے سارے خواب ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں۔ ایسے سانحے سے گزرنے والے والدین کے دل پر جو قیامت گزرتی ہے۔۔۔ جس دکھ اور غم کے صحرا سے انہیں گزرنا پڑتا ہے۔۔۔ اس کا سوچ کر ہی اس تحریر کو پڑھنے والے کی روح کانپ جاتی ہے۔

 یوں یہ چھ لفظوں کی کہانی ایک المیے کا روپ دھار لیتی ہے۔  یہ کہانی ہیمنگ وے  نے لکھی ہو یا کسی اور نے اپنے مفہوم اور پیغام کے اعتبار سے یہ ایک شاہکار ہے۔  فلیش فکشن،  جسے مائیکروفکشن بھی کہا جاتا ہے، مغربی ادب میں ایک ابھرتا ہوا ادبی رجحان ہے۔ چونکہ اسے ٹویٹر پر بھی آسانی سے لکھا جاسکتا ہے اس لیے اسے "ٹویٹریچر" بھی کہا جاتا ہے۔ آج کے تیز رفتار دور میں کسی کے پاس سینکڑوں صفحات پر مبنی ادبی تحریروں کو پڑھنے کا وقت نہیں ہے اس لیے خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک کی تیز رفتار سوسائٹی میں مختصر افسانے اور مختصر ترین افسانے کا رجحان بڑھ رہا ہے تاکہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ ادبیت والی تحریر سے محظوظ ہوا جا سکے۔ کم ترقی یافتہ ممالک میں ابھی فلیش فکشن یا مائیکرو فکشن کی مقبولیت ابھی زیادہ نہیں .۔۔ لیکن آنے والے دنوں میں امید کی جاتی ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں بھی اس مختصر ترین افسانہ فروغ پائے گا۔۔۔

اردو ادب میں  افسانچہ، منی افسانہ اور مختصر افسانہ کی روایت اجنبی نہیں ہے۔ سیاہ حاشیے کے تحت لکھی گئی منٹو کی تحریریں اس سلسلے کا نقطہء آغاز مانی جاتی ہیں۔جدید اردو افسانہ نگاری میں ممتاز نام پانے والے بھارتی ادیب ابرار نجیب اپنے ایک مقالے میں لکھتے ہیں کہ فلیش فکشن یا مائیکروفکشن اردو کے لیے بالکل نئی صنف نہیں ہے۔ جوگندر پال اس سلسلے میں اہم نام ہے، اس کے علاوہ حالیہ دنوں میں محمد بشیر مالیر کوٹلوی، اشتیاق سعید، رفیع حیدر انجم ،مبشر علی زیدی، جمیل اختر، اقبال خورشید، تحسین گیلانی  شامل ہیں۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ یہ ضرور ہے  کہ مغرب میں اس فن سے جو کام لیا جارہا ہے فی الحال اردو موضوعاتی سطح پر عصری مزاج کو اس میں ڈھالنے سے قاصر نظر آتی ہے۔اس سلسلے میں کافی مشق کی ضرورت ہے۔

امید ہے اردو زباں ، جو نئے اسالیب اور اصناف کو کھلے دل سے اپنے دامن میں جگہ دیتی ہے ۔۔۔ فلیش فکشن کو بھی اپنا لے گی ۔مزید یہ کہ نئے لکھنے والوں کو چاہیے کہ وہ فلیش فکشن یا مائکروفکشن میں موضوعاتی  سطح پر  عصری مزاج کو صحیح معنوں میں اس میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔

متعلقہ عنوانات