وفا نقوی کی غزل

    سمندروں سے کبھی دشت سے گزرنے میں

    سمندروں سے کبھی دشت سے گزرنے میں ہوئے تمام سفر زندگی کا کرنے میں بس اس نے آ کے ذرا آئنے کو دیکھا تھا ذرا سی دیر لگی روشنی بکھرنے میں بچھڑنا شاخ سے کل بھی ہے اور آج بھی ہے تو آندھیوں سے بھلا کیا رکھا ہے ڈرنے میں میں بے سبب ہی مخاطب ہوا دریچے سے نہا رہا تھا وہ یادوں کے ایک جھرنے ...

    مزید پڑھیے

    کیا جانے کس خیال میں کس راستے میں ہوں

    کیا جانے کس خیال میں کس راستے میں ہوں شاید میں تیرے بعد کسی مسئلے میں ہوں وہ بھی گھرا ہوا ہے زمانے کی بھیڑ میں میں بھی اسی جہاں سے ابھی رابطے میں ہوں تو مسکرا کے آج مجھے کر رہا ہے یاد یعنی میں تیرے ساتھ ترے آئنے میں ہوں صحرا میں تیز دھوپ کا احساس ہی نہیں باقی ہے ایک پیڑ ابھی ...

    مزید پڑھیے

    سبب نہیں تھا کوئی یوں تو اپنے رونے کا

    سبب نہیں تھا کوئی یوں تو اپنے رونے کا ہوا تھا شوق مگر آستیں بھگونے کا یہ کس خیال میں دن رات اب گزرتے ہیں نہ جاگنے کا کوئی وقت ہے نہ سونے کا ہم اپنے آپ کو پانے میں اس قدر گم تھے ہمیں ملا ہی نہیں وقت اس کو کھونے کا وہ موج تند بھی دریا کی تہ میں ڈوب گئی جسے تھا شوق بہت کشتیاں ڈبونے ...

    مزید پڑھیے

    پتھروں سے نہ کبھی ٹوٹ کے الفت کرنا

    پتھروں سے نہ کبھی ٹوٹ کے الفت کرنا جسم شیشے کا نہیں پھر بھی حفاظت کرنا اب نہ چھو لینا کبھی پھول سے رخساروں کو انگلیاں اپنی جلانے کی نہ زحمت کرنا جھکنے دینا نہ کسی پیڑ کی شاخوں کا غرور ڈھلتے سورج سے ذرا سی تو مروت کرنا اب جو بکھرے ہیں در و بام تو حیرت کیسی ہم نے سیکھا ہی نہ تھا ...

    مزید پڑھیے

    دریا تھا موج غم تھی سفینہ کوئی نہ تھا

    دریا تھا موج غم تھی سفینہ کوئی نہ تھا تاریک راستے تھے اجالا کوئی نہ تھا پھر بھی تمہارے شہر نے رکھا مرا خیال حالانکہ میرا چاہنے والا کوئی نہ تھا پلکوں پہ سب کی بوجھ ہے اک احتیاط کا کل رات میرے گاؤں میں سویا کوئی نہ تھا سب لوگ چل رہے تھے سڑک پر ملا کے ہاتھ دیکھا جو غور سے تو کسی ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ سے نکلا تو اک سیل رواں ہو جائے گا

    آنکھ سے نکلا تو اک سیل رواں ہو جائے گا ورنہ احساس محبت رائیگاں ہو جائے گا یہ مقید رہ سکا ہے کب کسی زندان میں عشق خوشبو ہے زمانے پر عیاں ہو جائے گا جسم کی دہلیز پر دستک سی ہے مہتاب کی کیا بدن اس رات میرا آسماں ہو جائے گا عمر کے اک دور میں یاد آئے گا صحرا کا ساتھ یہ سفر جو ہے حقیقت ...

    مزید پڑھیے

    کوئی چراغ نہ جگنو سفر میں رکھا گیا

    کوئی چراغ نہ جگنو سفر میں رکھا گیا دل و دماغ کو جب اپنے گھر میں رکھا گیا کھرچ کھرچ کے لکھا نام ایک خوشبو کا کسی کی یاد کو یوں بھی شجر میں رکھا گیا جو ایک لمحے کو چمکا تھا طور ہستی پر وہی تو عکس ہمیشہ نظر میں رکھا گیا مری نگاہ نے دیکھے نہیں کھنڈر اب تک مجھے تو گاؤں سے پہلے نگر میں ...

    مزید پڑھیے

    اس کا کوئی مجھے پتہ ہی نہیں

    اس کا کوئی مجھے پتہ ہی نہیں وہ مرے شہر میں رہا ہی نہیں اس کی آنکھیں عجیب آنکھیں تھیں خواب جن میں کبھی سجا ہی نہیں تیرا انکار کیا قیامت ہے لوگ کہنے لگے خدا ہی نہیں وہ خیالوں میں گھر میں رہتا ہے وہ سفر پر کبھی گیا ہی نہیں عمر بھر تیرا ذکر کرنا ہے ایک دن کا یہ سلسلہ ہی نہیں چاند ...

    مزید پڑھیے

    کسی کے دیدۂ تر کو نظر میں رکھتے ہیں

    کسی کے دیدۂ تر کو نظر میں رکھتے ہیں سفر میں خود کو مگر دل کو گھر میں رکھتے ہیں پلٹنا پڑتا ہے ہر شام ان پرندوں کو نہ جانے کون سی شے کو شجر میں رکھتے ہیں کھلی فضاؤں کی وسعت وہ کیسے سمجھیں گے جو قید خواب کو دیوار و در میں رکھتے ہیں پکارتے ہیں انہیں ان کے گھر کے سناٹے وہ اپنے آپ کو ...

    مزید پڑھیے

    آنکھیں ملا رہے ہیں وہی آسمان سے

    آنکھیں ملا رہے ہیں وہی آسمان سے واقف نہیں ہیں لوگ جو اپنے جہان سے کیا جانے کیسی جنگ ہے تشنہ لبی کے ساتھ خنجر ہی ہاتھ دھونے لگے اپنی جان سے اک دوسرے کے خون کی پیاسی ہے کائنات رہتا نہیں ہے کوئی کہیں بھی امان سے تاج شہی پہ خاک اڑاتا رہا فقیر مٹی نے عمر کاٹ ہی لی اپنی شان سے اب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4