وفا نقوی کی غزل

    بہتے ہوئے دریا کے کناروں کی طرح تھا

    بہتے ہوئے دریا کے کناروں کی طرح تھا تجھ سے مرا رشتہ کبھی خوابوں کی طرح تھا بستر پہ اتر آئی تھیں مہتاب کی کرنیں لہجہ ترا کل رات اجالوں کی طرح تھا میں اس کو پڑھا کرتا تھا ہر رات بہت دیر وہ شخص مرے پاس کتابوں کی طرح تھا کیا لمس تھا کیا زلف تھی کیا سرخیٔ لب تھی ہر رنگ ترا جیسے ...

    مزید پڑھیے

    میرے حصے کی اداسی مجھے لوٹا دینا

    میرے حصے کی اداسی مجھے لوٹا دینا جا رہے ہو تو مجھے کوئی تو تحفہ دینا ایک قطرہ بھی مری پیاس بجھا سکتا ہے میں نے کب تم سے کہا ہے مجھے دریا دینا میرے صحرا مجھے ہونا ہے اندھیروں کے خلاف جس میں سورج بھی چلا آئے وہ خیمہ دینا کون لائے گا کسی پیاس کے سجدے کا جواب اے خدا دشت نہ اب کرب و ...

    مزید پڑھیے

    موجوں کی سازشوں نے کنارہ نہیں دیا

    موجوں کی سازشوں نے کنارہ نہیں دیا تنکے نے ڈوبتے کو سہارا نہیں دیا اس نے بھی میرا حال نہ پوچھا کسی بھی وقت میں نے بھی اس کو کوئی اشارہ نہیں دیا اس رات کو سیاہ بتانے میں کیا گریز پلکوں پہ جس نے کوئی ستارہ نہیں دیا تاریخ لکھ رہی تھی نئے سر کی داستان لیکن سناں نے نام ہمارا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    وہ دریا ہے کوئی صحرا نہیں ہے

    وہ دریا ہے کوئی صحرا نہیں ہے مگر پرجوش بھی لگتا نہیں ہے تجھے تیرا سمندر ہو مبارک ہماری پیاس سے اچھا نہیں ہے وہی بارش کا چرچا کر رہے ہیں بدن جن کا کبھی بھیگا نہیں ہے کبھی دیکھا نہیں ہے ہم نے ورنہ زمیں کی وسعتوں میں کیا نہیں ہے ابھی سے آ گئی ہے رات ملنے ابھی تو چاند بھی نکلا نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4