سبب نہیں تھا کوئی یوں تو اپنے رونے کا
سبب نہیں تھا کوئی یوں تو اپنے رونے کا
ہوا تھا شوق مگر آستیں بھگونے کا
یہ کس خیال میں دن رات اب گزرتے ہیں
نہ جاگنے کا کوئی وقت ہے نہ سونے کا
ہم اپنے آپ کو پانے میں اس قدر گم تھے
ہمیں ملا ہی نہیں وقت اس کو کھونے کا
وہ موج تند بھی دریا کی تہ میں ڈوب گئی
جسے تھا شوق بہت کشتیاں ڈبونے کا
بس ایک لمس کی شاہد تو میری ہستی ہے
عجب سرور تھا مٹی ترے کھلونے کا