کسی کے دیدۂ تر کو نظر میں رکھتے ہیں

کسی کے دیدۂ تر کو نظر میں رکھتے ہیں
سفر میں خود کو مگر دل کو گھر میں رکھتے ہیں


پلٹنا پڑتا ہے ہر شام ان پرندوں کو
نہ جانے کون سی شے کو شجر میں رکھتے ہیں


کھلی فضاؤں کی وسعت وہ کیسے سمجھیں گے
جو قید خواب کو دیوار و در میں رکھتے ہیں


پکارتے ہیں انہیں ان کے گھر کے سناٹے
وہ اپنے آپ کو کیوں رہ گزر میں رکھتے ہیں


خلوص رکھتے ہیں لیکن جھکا نہیں کرتے
انا کا رنگ بھی تھوڑا ہنر میں رکھتے ہیں