دریا تھا موج غم تھی سفینہ کوئی نہ تھا
دریا تھا موج غم تھی سفینہ کوئی نہ تھا
تاریک راستے تھے اجالا کوئی نہ تھا
پھر بھی تمہارے شہر نے رکھا مرا خیال
حالانکہ میرا چاہنے والا کوئی نہ تھا
پلکوں پہ سب کی بوجھ ہے اک احتیاط کا
کل رات میرے گاؤں میں سویا کوئی نہ تھا
سب لوگ چل رہے تھے سڑک پر ملا کے ہاتھ
دیکھا جو غور سے تو کسی کا کوئی نہ تھا
مایوس کر دیا تھا کسی کے فریب نے
بجھتی ہوئی نگاہ میں چہرہ کوئی نہ تھا
اندر سے ہو چکے تھے بہت مضمحل سے لوگ
باہر سے دیکھنے کو تو ٹوٹا کوئی نہ تھا
دستک ہوئی تھی پہلے سی میرے مکان میں
باہر نکل کے آج بھی دیکھا کوئی نہ تھا