آنکھیں ملا رہے ہیں وہی آسمان سے
آنکھیں ملا رہے ہیں وہی آسمان سے
واقف نہیں ہیں لوگ جو اپنے جہان سے
کیا جانے کیسی جنگ ہے تشنہ لبی کے ساتھ
خنجر ہی ہاتھ دھونے لگے اپنی جان سے
اک دوسرے کے خون کی پیاسی ہے کائنات
رہتا نہیں ہے کوئی کہیں بھی امان سے
تاج شہی پہ خاک اڑاتا رہا فقیر
مٹی نے عمر کاٹ ہی لی اپنی شان سے
اب سورجوں سے ہاتھ ملانے کا وقت ہے
اکتا گئے ہیں لوگ بہت سائبان سے
مدت سے رو رہی ہے سمندر کی موج موج
کیا کہہ گیا تھا کوئی لرزتی زبان سے
ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس کے ساتھ
وحشت سی ہو رہی ہے ہمیں جس مکان سے