اس کا کوئی مجھے پتہ ہی نہیں

اس کا کوئی مجھے پتہ ہی نہیں
وہ مرے شہر میں رہا ہی نہیں


اس کی آنکھیں عجیب آنکھیں تھیں
خواب جن میں کبھی سجا ہی نہیں


تیرا انکار کیا قیامت ہے
لوگ کہنے لگے خدا ہی نہیں


وہ خیالوں میں گھر میں رہتا ہے
وہ سفر پر کبھی گیا ہی نہیں


عمر بھر تیرا ذکر کرنا ہے
ایک دن کا یہ سلسلہ ہی نہیں


چاند شب بھر اداس رہتا ہے
وہ دریچے سے جھانکتا ہی نہیں


فاصلہ کچھ نہ کچھ رکھا اس نے
ٹوٹ کر وہ کبھی ملا ہی نہیں